دعوت اسلامی:خدمت انسانیت میں ایک قدم اورآگے تھیلیسیمیا فری پاکستان کی جانب کامیابی سے سفرجاری

0
55

کراچی :دعوت اسلامی ،خدمت انسانیت میں ایک قدم اورآگے : تھیلیسیمیا فری پاکستان کی جانب کامیابی سے سفرجاری ،اطلاعات کےمطابق دعوت اسلامی جہاں اہل پاکستان کی دین سے متعلق علم وآگہئی کےلیے کام کررہی ہے وہاں خدمت انسانیت میں بھی پیش پیش ہے ،

 

تھیلیسیمیا فری پاکستان کی جانب تیزی سے کامیابی کے ساتھ مشن پرکاربند دعوت اسلامی نے کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کے دروان کمال کام کردکھایا

 

دعوت اسلامی ذرائع کےمطابق کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کے دوران دعوت اسلامی نے پچھلے چارماہ کے قلیل عرصے میں بلڈ کیمپ کا انعقاد کرکے 29ہزار خون کی بوتلیں مختلف اداروں کو عطیہ کیں

 

باغی ٹی وی کےمطابق اس دوران کوڈ19کے دوران امت کی خیر ہواہی کا بیڑا اٹھایا اور لاکھوں خاندانوں کی مدد کیلئے میدان عمل میں آئے

 

دعوت اسلامی کے ترجمان عبدالحبیب عطاری نے اس حوالے سے اپنے اپم پیغام میں کہا ہےکہ ہم وطن عزیز کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اورملک سے اس مرض کا خاتمہ چاہتے ہیں،

ذرائع کے مطابق ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دعوت اسلامی نے پلازمہ ڈونیٹ کراکے پلازمہ کی ناجائز خریدوفروخت پر بھی بند باندھ دیا

ادھر ذرائع کے مطابق اس حوالے سے  فیضان مدینہ میں اسپریچول تقریب کا انعقاد، تھیلیسیمیا پر کام کرنیوالے اداروں کے نمائندگا ن کی شرکت

باغی ٹی وی ذرائع کے مطابق اس موقع پر مولانا محمد عمران عطاری نے شرکاء کو دعوت اسلامی کی جاب سے کی جانے والی فلاحی سرگرمیوں سے آگاہ کیا

دعوت اسلامی کے ترجمان کے مطابق اس اہم تقریب کے اختتام پرمختلف اداروں کی جانب سے  تھیلیسیمیا بلڈ ڈراو پر دعوت اسلامی کو اعزازی شیلڈدی گئی

 

تھیلیسیمیا کیا ہے؟ اور اس سے نجات کس طرح ممکن ہے؟

 

 ۔

 

آئیے سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ تھیلیسیمیا ہے کیا چیز؟ اور کیا واقعی بیرونی حملہ آور اسے اپنے ساتھ لائے تھے؟

’تھیلیسیمیا خون کے اس مرض کو کہتے ہیں جس میں معیاری خون ناکافی بنتا ہے۔ یہ خون میں ہیموگلوبن کا پیدائشی نقص ہے۔ اس کی 3 اقسام ہیں:

  • پہلی: تھیلیسیمیا مائنر،
  • دوسری: تھیلیسیمیا انٹر میڈیا اور
  • تیسری: تھیلیسیمیا میجر۔‘

تھیلیسیمیا مائنر

’جو لوگ والدین میں سے ایک سے نارمل اور ایک سے ابنارمل جین حاصل کرتے ہیں، ان کو تھیلیسیمیا مائنر کہتے ہیں۔ ان میں بیماری کی کوئی علامت نہیں ہوتی۔ لیکن یہ ابنارمل جین اپنے بچے کو منتقل کرسکتے ہیں۔‘

تھیلیسیمیا انٹر میڈیا

تھیلیسیمیا انٹر میڈیا یہ تھیلیسیمیا کی درمیانی قسم ہے، جس میں ہیموگلوبن 7 سے G9 تک رہتی ہے اور تھیلیسیمیا میجر کے مقابلے میں اس میں مریض کو خون لگوانے کی ضرورت کم پڑتی ہے۔ تاہم اس میں ’سائیڈ افکیٹس‘ آسکتے ہیں اور پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔‘

تھیلیسیمیا میجر

تھیلیسیمیا  یہ خون کی خطرناک بیماری ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریض کو بروقت خون نہ دیا جائے تو اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔‘

تھیلیسیمیا کی تاریخ کیا ہے؟

تھیلیسیمیا کی تاریخ سکندرِ اعظم سے شروع ہوتی ہے۔ یہ بیماری ہرگز خیبرپختونخوا، مالاکنڈ ڈویژن یا سوات کی اپنی بیماری نہیں ہے۔ اس بارے میں الفجر فاؤنڈیشن سوات (تھیلیسیمیا سینٹر) کے ایڈمنسٹریٹر رحمان علی ساحل کہتے ہیں کہ ’سکندر اعظم اسے جنوبی ایشیا پر حملہ آور ہوتے وقت سیکڑوں سال پہلے اپنے ساتھ یونان سے لائے تھے‘۔

 

 

 

تھیلیسیمیا ایک یونانی لفظ ’تھیلس‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب سمندر ہے۔ چونکہ یہ بحیرہ روم کے ارد گرد پایا جاتا تھا اور امریکی ماہرِ اطفال تھامس کولی نے ڈاکٹر پرل لی کے ساتھ مل کر پہلی بار 1927ء میں اس کی خصوصیات بیان کیں جو اٹلی کے مریضوں میں مشاہدہ کی گئیں۔‘

 

 

مذکورہ کتاب کے صفحہ 118 پر درج ہے کہ ‘آغاز میں تھیلیسیمیا ایک خطے کی بیماری سمجھی جاتی تھی، لیکن اب یہ دنیا کے ہر خطے میں موجود ہے۔ یہ جنوب یورپ میں پرتگال سے اسپین، یونان اور وسطی یورپ کے علاوہ روس کے کچھ علاقوں میں بھی موجود ہے۔ وسطی ایشیا میں یہ ایران، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا اور شمالی چین کے علاوہ افریقہ کے جنوبی ساحل اور جنوبی امریکہ میں بھی موجود ہے۔

 

 

حوصلہ افزا بات کتاب کے صفحہ 119 پر کچھ یوں درج ہے: ’اٹلی، یونان اور سائپرس جیسے ممالک نے کامیاب قومی روک تھام کے منصوبوں سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ تھیلیسیمیا میجر پر قابو پایا جاسکتا ہے’۔

واضح رہے کہ تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ والدین سے جینز کے ذریعے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ بیماری مریض سے انتقالِ خون، ہوا، پانی، جسمانی یا جنسی تعلق سے منتقل نہیں ہوسکتی اور نہ خوراک کی کمی یا طبی بیماری سے۔ اس حوالے سے رحمان علی ساحل کہتے ہیں کہ ‘اگر ماں باپ میں سے کسی ایک کو تھیلیسیمیا مائنر ہو، تو بچے کو بھی تھیلیسیمیا مائنر ہی ہوگا۔

 

 

اگر خدا نخواستہ ماں باپ دونوں کو تھیلیسیمیا مائنر ہو تو ان کے ملاپ سے جنم لینے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر ہوگا۔ اس لیے ضروری بات یہ ہے کہ اگر خاندان کے اندر شادی ہونے جا رہی ہو، تو لڑکا لڑکی دونوں کے ٹیسٹ کرائے جائیں۔ اگر مائنر بیماری دونوں میں پائی جائے، تو شادی روک دی جائے۔ اس طرح باآسانی تھیلیسیمیا کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔

 

Leave a reply