سلطان عبدالحمید ثانی تحریر: ذیشان علی

0
169

سلطنت عثمانیہ کا 34 سلطان عبدالحمید ثانی 21 ستمبر 1842 کو استنبول (موجودہ ترکی کا علاقہ) میں پیدا ہوئے، دس سال کی عمر میں والدہ کا انتقال ہو گیا ان کی سوتیلی ماں نے ان کی دیکھ بھال کی تھی ان کی سوتیلی ماں کی کوئی اولاد نہیں تھی انہوں نے سلطان عبد الحمید کی بہترین تربیت کی اور سگی ماں کی طرح ان کی پرورش کی اور وفات کے وقت اپنی ساری جائیداد عبدالحمید کے نام کر دی تھی،
عبدالحمید ثانی ایک ہنر مند بڑھائی بھی تھے۔ انہوں نے ذاتی طور پر کچھ اعلی معیار کا فرنیچر تیار کیا تھا جسے استنبول کے یلدز ، سیل کوسکو اور بییلربی محل میں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے،
13 اگست 1876ء جب سلطان عبدالحمید ثانی کی بیعت کی گئی، اس وقت وزراء اعیان سلطنت اور بڑے بڑے سول اور فوجی افسر سرائے طوبقیو میں موجود تھے، مختلف جماعتوں کے نمائندوں نے انہیں خلافت کی مبارکباد دی سلطنت کے طول و عرض میں گولے داغے گئے اور جشن کا اہتمام کیا گیا تین دن تک استانبول میں خوب چہل پہل رہی اور صدر اعظم نے اطلاع کے لیے دنیا کے مختلف ملکوں کو ٹیلی گرام بھیجے،
سلطان عبدالحمید ثانی نے مدحت پاشا کو صدر اعظم مقرر کیا پھر 23 دسمبر 1876 کو اس دستور کا اعلان کر دیا جس میں شہری آزادیوں کی ضمانت دی گئی اور پارلیمانی حکومت کی طرز پر دستور پیش کیا گیا،
سلطان عبد الحمید کو اپنے دور حکومت کے ابتدائی سالوں میں وزراء کی طرف سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جدید عثمانیوں کی جمعیت کی قیادت میں ان کی مغربی طرز کی پالیسیوں کی وجہ سے انہیں سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا،
یہ لوگ اگرچہ تعلیم یافتہ تھے لیکن مغربی رہن سہن اور تہذیب و ثقافت نے انہیں متاثر کردیا،
اور سلطنت کی تباہی میں متحرک جماعتوں نے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا،وزراء کا حکومت پر دباؤ حد سے بڑھ گیا اور مدحت پاشا جو جدید عثمانیوں کی جماعت کی نمائندگی کر رہے تھے سلطان عبدالحمید کو ابتدائی دور حکومت 1877 میں لکھا!؛
"”دستور کے اعلان سے ہمارا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ظلم کا خاتمہ ہو سب کے حقوق و فرائض کا تعین ہو وزراء کے وظائف کا تعین اور تمام لوگوں کی آزادی اور حقوق کی ضمانت ہو تاکہ ہمارا ملک ترقی کرے، میں آپ کے احکام کی اسی صورت میں بجا آوری کروں گا کہ یہ احکام قوم کے مفادات کے منافی نہیں ہونگے،
سلطان عبدالحمید ثانی اس خط کے جواب میں کہتے ہیں میں دیکھتا ہوں کہ مدحت پاشا اپنے آپ کو مجھ پر حاکم اور آمر خیال کرتا ہے اور اپنے معاملے میں جمہوریت سے بہت دور اور آمریت کے بہت قریب ہے،
مدحت پاشا اور اس کے ساتھی شراب نوشی کیا کرتے تھے، مدحت پاشا شراب نوشی کی خصوصی محفل میں مملکت کے اہم ترین راز افشا کر دیتا تھا اور دوسرے دن یہ راز استانبول کے رہنے والوں کے درمیان پھیل جاتے تھے ایک رات میں اس نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بہت جلد دولت عثمانیہ میں جمہوریت کا اعلان کرنے والے ہیں،
مدحت پاشا پر سلطان عبدالعزیز کے قتل کا الزام بھی تھا سلطان عبدالحمید نے ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ وہ اس بارے تحقیق کرے پھر الزام لگانے والوں کو عدالت میں پیش کیا گیا پاشا پر جرم ثابت ہو گیا عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی لیکن سلطان عبدالحمید کی مداخلت پر موت کی سزا کو قید میں تبدیل کر دیا گیا مدحت پاشا کو حجاز مقدس کی طرف جلاوطن کر دیا گیا جہاں فوجی قیدیوں کے لیے قید خانہ موجود تھا،
سلطان عبد الحمید اپنے اسلاف کی طرح 1876 تا 1909 تک کلی اختیارات استعمال کرتے رہے،
جو دستور متعارف کرایا گیا اس میں پارلیمنٹ کے ممبران کو آزادی رائے کا حق حاصل ہوگا، ان کا محاسبہ صرف اس صورت میں ہوگا کہ وہ مجلس کے اصولوں سے تجاوز کر جائیں یہ دستور عثمانی ترکوں کی زبان میں لکھا گیا تھا کیونکہ یہی ملک کی سرکاری زبان تھی،
دستور میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ ملک میں رہنے والے تمام افراد عثمانی قوم کے افراد شمار ہوں گے اور ان میں کسی قسم کی تفریق نہیں برتی جائے گی تمام افراد کا تعلق کسی بھی دین سے ہو قانون کی نظر میں یکساں ہوں گے تمام افراد پر ایک جیسے فرائض واجبات عائد ہونگے،اور تمام کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے،
سلطان عبدالحمید نے حکم دیا کہ دستور کو نافذ کیا جائے اور عام انتخاب کرائے جائیں تاریخ عثمانی میں اس طرح کا کام پہلی بار ہو رہا تھا اس انتخاب میں 71 سیٹیں مسلمانوں کو اور 44 سیٹیں نصرانیوں کو اور 4 سیٹیں یہودی نمائندوں کو حاصل ہوئیں،
پہلی عثمانی پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس 29 مارچ 1877 کو ہوا ایوان بالا 26 ممبران پر مشتمل تھا جس میں 21 مسلمان نمائندے اور باقی غیر مسلم تھے لیکن مجلس نمائندگان 120 ارکان پر مشتمل تھی اجلاس میں جب مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی تو بعض عرب نمائندوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا لیکن مجلس نمائندگان کی عمر بہت کم ثابت ہوئی اس سے پہلے کہ اس کا دوسرا سیشن مکمل ہوتا 13 فروری 1878 میں بعض نمائندگان نے تین وزراء کو مجلس کے سامنے جوابدے ہونے کے لیے طلب کر لیا کیونکہ ان پر کچھ الزامات تھے معاملہ سلطان تک پہنچا سلطان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا سلطان عبدالحمید نے مجلس کو برخاست کر دیا اور بہت سے ممبران کو جلاوطن کردیا،
عبدالحمید دوم نے دور دراز کے ممالک کا دورہ کیا تخت سنبھالنے سے 9 سال قبل وہ اپنے چاچا سلطان عبدالعزیز کے ساتھ کئی یورپی دارالحکومت اور شہروں کے دورے پر گئے جن میں پیرس، لندن اور ویانا وغیرہ سرفہرست ہیں،
سلطان عبدالحمید نے بیوروکریسی میں اصلاحات کی رمیلیا ریلوے اور اناطولیہ ریلوے کی توسیع کے ساتھ ساتھ بغداد اور حجاز ریلوے کی تعمیر ان کے دور میں ہوئی،
ان کے دور میں بہت سے پیشہ وار اسکول قانون سمیت تمام شعبوں کے لیے قائم کیے گئے آرٹس سول انجینئر ویٹرنری میڈیسن کاشتکاری اور لسانیت البتہ 1881 نے استانبول یونیورسٹی بند کر دی گئی تھی لیکن 1900 میں اسے دوبارہ کھول دیا گیا تھا،
اور پوری سلطنت میں ثانوی پرائمری اور فوجی اسکولوں کا نیٹ ورک بڑھا دیا گیا۔عثمانی سلطنت کی جدید کاری ان کے دور حکومت میں جاری رہی،
تاریخ میں ان کا نام سلطنت عثمانیہ کے آخری بااثر اور با اختیار خلیفہ کے طور پر جانا جاتا ہے جو اپنا وژن خارجہ پالیسی اور نظریات رکھتے تھے،
1877 اور 1878 روس کے ساتھ جنگ میں سلطنت عثمانیہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم اس کے باوجود سلطان عبدالحمید نے اپنی فوج کو منظم کیا اور سلطنت کو سہارا دیا روس کے ساتھ جنگ کے بعد وہ اس بات پر قائل ہو گئے کہ یورپی اتحاد ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا، یورپی اتحادی سلطنت پر مشکل وقت میں کام نہیں آئیں گے،
لیکن یونان کے ساتھ جنگ میں عثمانیوں کو فتح حاصل ہوئی،
سلطان عبدالحمید نے اسلامی قانون اور ضابطہ اخلاق پر زور دیا کیونکہ تنظیمات کے تحت سلطنت کے زوال کو روکنا ممکن نہیں تھا، اسلامی شناخت پر توجہ کم کرنے کے باعث قومیت پسندی کو زیادہ تقویت ملی تھی سلطان نے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ مغرب کو ترکی سے کم ہی خار ہے مغربی طاقتوں کو اصل ہدف اسلامی شناخت کا طرز حکومت ہے، سلطان اس بات پر قائل ہوگئے تھے کہ مسلمانوں کو نظریاتی طور پر مسلم شناخت کی جانب قائل کرنا ہوگا،
انیسویں صدی دنیا بھر میں یورپی قومیت کے نظریات کی لپیٹ میں آ چکی تھی اور سلطنت عثمانیہ کی کئی ریاستیں ان نظریات سے متاثر ہو چکی تھی عرب ممالک میں اسلامی شناخت کی بجائے عرب قومیت کے نظریات فروغ پانے لگے،
1881 میں فرانس نے تیونس اور 1882 میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا تھا انیسویں صدی کے آخری دہائی میں برطانوی اخبارات میں مختلف تجاویز شائع ہوتی رہی کہ برطانیہ کو جزیرہ نما عرب میں اپنا کنٹرول بڑھانا چاہیے اور یہ بھی کہ خلیفہ عبدالحمید چونکہ سادات میں سے نہیں اس لئے میں نے سلطنت کا حق نہیں چناچہ عرب کے لیے خلیفہ عرب میں سے ہی ہو اور سادات میں سے ہونا چاہیے ان حالات میں قومیت کو فروغ ملا بیرونی محاذوں پر مسائل کا سامنا کرنے والی سلطنت کو اندرونی سطح پر زیادہ چیلنجز کا سامنا ہونے لگا،
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سلطان عبدالحمید نے حجاز مقدس کی جانب بھی دستے روانہ کئے تاکہ حالات کو کنٹرول میں رکھا جائے اور سلطنت کی وحدت قائم رہے السعود خاندان کی جانب سے بھی مختلف علاقوں میں کنٹرول کے لئے سلطنت کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہیں 1902 ملک عبدالعزیز ابن سعود نے ریاض کا کنٹرول سنبھال لیا اور یہی تاریخ بعد میں سعودی عرب کے قیام کا باعث بنی،
اسی طرح سلطنت کے بہت سے علاقے ہاتھ سے نکلتے گئے،
لیکن سلطان عبدالحمید ثانی نے بہت مشکل حالات میں سلطنت کو سنبھالے رکھا سلطان عبدالحمید ثانی کا شمار سلطنت عالیہ کے نامور اور ذہین سلاطین میں ہوتا ہے۔
مگر مغرب کی طرف سے قومیت پرست سازش کی شورش اتنی زیادہ تھی کہ آخر کار وہ سلطنت کے خاتمے کا باعث بنی،
اگرچہ سلطان عبدالحمید ثانی کے بعد دو اور بھی سلطان منتخب ہوئے لیکن وہ سلطنت کے نام نہاد سلطان تھے،
سلطان 27 اپریل 1909 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اللہ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین،

سلطان عبدالحمید ثانی کے دور حکومت پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن اس سے یہ تحریر بہت لمبی ہو سکتی ہے بہت ایسے واقعات ہیں جو اس تحریر میں شامل نہیں کر پایا،

ذیشان علی
@zsh_ali

Leave a reply