27سال پہلے آج ہی کے دن پاکستان فلم انڈسٹری کے سپر سٹار سلطان راہی کو قتل کر دیا گیا تھا. 27 سال گزر گئے لیکن ان کے قاتلوںکا نہ سراغلگ سکا نہ ہی اس قتل کی وجوہات سامنے آ سکیں. آج ان کی 27 ویں برسی منائی گئی. سلطان راہی نے اپنے 40 سال پر محیط کیریئر کے دوران تقریباً 703 پنجابی فلموں اور 100 اردو فلموں میں کام کیا. ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں متعدد ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ان کو ملنے والے ایوارڈز کی تعداد 160 کے قریب ہے. 1975 میں انہوں نے وہشی جٹ میں مولا جٹ کا کردار نبھایا، اس کردار نے ان کو ایسی شہرت دی کہ جو ان کے مرنے کے بعد بھی برقرار ہے اس کردار کی وجہ سے انہیں نگار ایوارڈ بھی ملا۔ انہوں نے اس کے سیکوئل مولا جٹ میں اس کردار کو دہرایا۔سلطان راہی کو ایکبار کسی نے کہہ بھی دیا تھا کہ تم کبھی بھی اداکار نہیں بنو گے لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور لگے رہے اور ایک وقت ایسا آیا کہ فلم انڈسٹری سلطان راہی کے سر پر چلنے لگی.
انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1959 میں فلم باغی میں بطور مہمان اداکار کیا۔ ان کی پہلی کامیاب فلم وحشی جٹ تھی یہ فلم 1975 میں ریلیز ہوئی۔ مولا جٹ کے علاوہ ان کی کئی مشہور فلمیں تھیں جن میں بہرام ڈاکو ، شیر خان، سالا صاحب اور غلامی کا نام قابل زکر ہے . ان کی آخری فلم سخی بادشاہ تھی اس میں ایک گیت کی دم دا بھروسہ یار آج بھی مقبول ہے.