خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس: سنی اتحاد کونسل کا بائیکاٹ
اسلام آباد: سنی اتحاد کونسل نے ججز کی تقرری کے سلسلے میں قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق سنی اتحاد کونسل کے ممبران نے کمیٹی میں شرکت نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کیا تھا، اور اس فیصلے سے اسپیکر کے چیمبر میں ہونے والی میٹنگ میں آگاہ کر دیا گیا تھا۔کمیٹی نے احسن اقبال، رعنا انصار، راجہ پرویز اشرف اور کامران مرتضیٰ پر مشتمل ایک ذیلی کمیٹی بنائی، جسے سنی اتحاد کونسل کے ممبران سے ملاقات کرکے انہیں اجلاس میں شرکت کے لیے قائل کرنے کا کہا گیا۔ ذیلی کمیٹی نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے ملاقات کی درخواست کی، جس کے نتیجے میں اسپیکر کے چیمبر میں سنی اتحاد کونسل کے ممبران اور ذیلی کمیٹی کے ممبران کے درمیان ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں بیرسٹر گوہر نے بھی شرکت کی اور سنی اتحاد کونسل کی جانب سے کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بتایا۔
خیال رہے کہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس پہلے ہی ساڑھے 8 بجے تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان کی نامزدگی کے لیے کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا، جو اب ساڑھے 8 بجے دوبارہ ہوگا۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا بند کمرہ اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کے کمیٹی روم 5 میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے بائیکاٹ کے باوجود سنی اتحاد کونسل کے تین ارکان کے لیے نشستیں مخصوص کی گئیں۔ اجلاس میں علی ظفر، بیرسٹر گوہر اور حامد رضا کی نشستیں بھی رکھی گئیں، جبکہ تمام 12 اراکین کی نیم پلیٹس بھی لگائی گئی تھیں۔اجلاس میں موجود دیگر اراکین میں راجہ پرویز اشرف، فاروق ایچ نائیک، کامران مرتضیٰ، رعنا انصار، احسن اقبال، شائشتہ پرویز ملک، اعظم نذیر تارڑ، اور خواجہ آصف شامل تھے۔
اجلاس میں آج ہی نئے چیف جسٹس پاکستان کی تقرری کی منظوری دیے جانے کا امکان ہے۔ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، حکومت نے اصل آئینی پیکیج کو یکسر تبدیل کر دیا ہے، جس کے تحت آئینی عدالت نہیں، بلکہ ایک بنچ تشکیل دیا جائے گا، اور چیف جسٹس کا تقرر تین سینئر ترین ججز میں سے ہوگا۔ اجلاس کے بائیکاٹ اور سنی اتحاد کونسل کے انکار نے اس اہم معاملے پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، اور اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور دیگر سیاسی جماعتیں اس صورتحال کا کس طرح مقابلہ کرتی ہیں۔