سپریم کورٹ میں آئندہ پیش رفت: نیا بینچ یا جسٹس منیب اختر کی شمولیت؟
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کے تحت جاری نظرثانی کیس کی سماعت سے متعلق ایک اہم تحریری حکم نامہ سامنے آیا ہے۔ حکم نامے میں رجسٹرار سپریم کورٹ کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ جسٹس منیب اختر کو اس کیس کی سماعت کے لیے بنائے گئے بینچ میں شمولیت کی درخواست کریں۔ اگر جسٹس منیب اختر انکار کریں تو ججز کمیٹی کا نیا جج اس بینچ میں شامل کیا جائے گا۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس منیب اختر آج کمرہ عدالت نمبر 3 میں بینچ کی سربراہی کر رہے تھے، اور وہ دیگر ججز کے ہمراہ ٹی روم میں بھی موجود تھے۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ جسٹس منیب عدالت کی معمول کی کارروائی میں شریک ہیں، تاہم انہوں نے اس خاص کیس کی سماعت میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے۔یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ رجسٹرار جسٹس منیب اختر سے درخواست کریں گے کہ وہ بینچ میں شمولیت اختیار کریں اور اس کیس کی سماعت کا حصہ بنیں۔ اگر جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہیں تو سپریم کورٹ کی ججز کمیٹی نیا جج بینچ میں شامل کرنے کا عمل شروع کرے گی۔
حکم نامے میں جسٹس منیب اختر کی جانب سے رجسٹرار کو لکھا گیا ایک خط بھی شامل کیا گیا ہے، جسے باقاعدہ طور پر ریکارڈ پر رکھا گیا ہے۔ اس خط کے آخری الفاظ میں جسٹس منیب اختر نے واضح کیا کہ وہ اس کیس کی سماعت میں شامل نہیں ہو سکتے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی سماعت میں شرکت سے معذرت کو "Recusal” نہ سمجھا جائے، یعنی یہ ان کا رسمی انکار نہیں ہے بلکہ کچھ مخصوص وجوہات کی بناء پر وہ اس سماعت کا حصہ نہیں بن سکتے۔یہ مؤقف سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ میں یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ آیا جسٹس منیب اختر کے اس انکار کے بعد وہ اس حکم نامے پر دستخط کریں گے یا نہیں۔ اگر وہ دستخط کرنے سے انکار کرتے ہیں تو اس کا کیا قانونی اور آئینی مفہوم ہوگا، یہ تاحال واضح نہیں ہو سکا ہے۔
حکم نامے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ اگر جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہیں تو نیا بینچ تشکیل دیا جائے گا۔ اس بینچ کی تشکیل ججز کمیٹی کی ذمہ داری ہوگی، جو سپریم کورٹ میں اہم معاملات کو حل کرنے کے لیے بینچ کی تشکیل کے عمل کا انتظام کرتی ہے۔حکم نامے پر چیف جسٹس اور چار دیگر ججوں کے دستخط کے لیے جگہ رکھی گئی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جسٹس منیب اختر کو بھی اس دستاویز میں شامل کیا گیا ہے۔ تاہم، یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ اگر جسٹس منیب اختر نے اس حکم نامے پر دستخط کرنے سے انکار کیا تو اس کے کیا اثرات ہوں گے۔یہ معاملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عدالت کے اندرونی نظام میں ججز کے درمیان بعض اوقات سماعت میں شمولیت اور بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ جسٹس منیب اختر کا موقف ان پیچیدگیوں کی ایک مثال ہے، جس سے یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ ججز کے انفرادی فیصلے کس طرح عدالتی عمل کو متاثر کر سکتے ہیں۔
آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس، جو سیاسی طور پر اہمیت کا حامل ہے، میں جسٹس منیب اختر کی عدم شمولیت اور نئے بینچ کی تشکیل کے عمل کو بہت غور سے دیکھا جا رہا ہے، اور اس کے آئندہ دنوں میں سپریم کورٹ کی کارروائیوں پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔اس حکم نامے کے بعد، آئندہ دنوں میں سپریم کورٹ میں اس حوالے سے کیا پیش رفت ہوگی، اور آیا جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہوں گے یا نیا بینچ تشکیل دیا جائے گا، یہ سب قانونی حلقوں اور میڈیا میں بحث کا موضوع بنے گا۔ یہ صورتحال ملک کے عدالتی نظام میں ججز کی انفرادی آزادی اور ان کی آئینی ذمہ داریوں کے درمیان توازن کی اہمیت کو بھی نمایاں کرتی ہے۔