سپریم کورٹ کا مبارک ثانی کیس کا تحریری فیصلہ: ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کا موقف

supreme

سپریم کورٹ آف پاکستان نے مبارک ثانی کیس میں اہم فیصلہ سناتے ہوئے وفاق اور پنجاب حکومت کی جانب سے 24 جولائی کو دائر کی گئی درخواستوں پر وضاحت فراہم کی ہے۔ عدالت نے فیصلہ کیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی درخواستوں کے نتیجے میں 19 علماء اکرام کو نوٹس جاری کیے گئے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں بتایا کہ علماء کرام نے پیرا 7، 42 اور 49 (ج) کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے۔ ان کے مؤقف کو سننے کے بعد، عدالت نے فیصلہ کیا کہ 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلے میں معترضہ پیراگراف کو حذف کیا جائے۔عدالت کے جاری کردہ فیصلے کے مطابق، مبارک ثانی کیس کی تصحیح شدہ شکل کے بعد، 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلوں کو واپس لے لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، ٹرائل کورٹ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گزشتہ فیصلوں سے متاثر ہوئے بغیر ضمانت کیس کا ٹرائل جاری رکھے۔یہ فیصلہ اس معاملے کی قانونی پیچیدگیوں کی روشنی میں سامنے آیا ہے، جس نے عوام اور قانونی حلقوں میں کافی بحث و تمحیص پیدا کی تھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کا موقف
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس معاملے پر اپنی گہری تشویش اور خیال کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے بارے میں قرآن کی آیات اور احادیث کی روشنی میں واضح دلائل پیش کیے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ فیصلہ ملک میں موجود مذہبی ہم آہنگی کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ڈاکٹر نعیمی نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی فرد یا گروہ کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے مذہب کا پیروکار ظاہر کرے جس کے بنیادی عقائد سے وہ انکاری ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ قادیانیوں کا اپنے آپ کو مسلمان یا احمدی مسلمان کہلانا درست نہیں ہے، کیونکہ اس سے اسلامی عقائد کی بنیاد پر سوالات اٹھتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ قادیانیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مذہب کی حقیقت کو تسلیم کریں اور اس کے مطابق اپنی شناخت کو واضح کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ بحیثیت پاکستانی شہری قادیانیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئین میں طے شدہ اپنی آئینی حیثیت کو تسلیم کریں۔ یہ بات اہم ہے کہ آئین پاکستان میں واضح طور پر قادیانیوں کی مذہبی حیثیت کو بیان کیا گیا ہے، اور اس کی پیروی کرنا ہر شہری کا فرض ہے۔ ڈاکٹر نعیمی نے یہ بھی کہا کہ یہ فیصلہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے، اور انہیں چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی مذہبی حساسیت کا احترام کریں۔
یہ معاملہ نہ صرف قانونی نقطہ نظر سے بلکہ سماجی اور مذہبی حوالے سے بھی اہم ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مذہبی معاملات میں قانونی طریقہ کار کی پیروی ضروری ہے، اور یہ بات مسلمہ ہے کہ کوئی بھی فرد اپنے عقائد کو تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی جانب سے اٹھائے گئے نکات نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ مذہبی عقائد کے تحفظ کی خاطر سختی ضروری ہے۔ڈاکٹر نعیمی کے بیان نے ملک میں جاری مذہبی بحث میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے۔ ان کا موقف اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ قادیانیوں کو پاکستان کی مذہبی و ثقافتی حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات کے دائرے میں لانا چاہیے۔

Comments are closed.