سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے انتخابی نشان سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا

0
80
supreme

‏تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان دینے سے متعلق کیس کا فیصلہ کو الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا، . سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے انتخابی نشان سے متعلق کیس 38 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا، تفصیلی فیصلہ میں کہا کہا کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات میں اپنے ہی ممبران کو لاعلم رکھا، اور قانون کے مطابق پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان نہیں دیا جاسکتا، فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو متعدد شوکاز نوٹس جاری کیے، شوکاز نوٹسز کے باوجود پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، تفصیلی فیصلہ میں مزید لکھا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے، اور انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر انتحابی نشان واپس لیا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ کے جاری فیصلے میں مزید بتایا گیا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن جیت کر آنے والوں کو یہ اختیار ملتا ہے کہ وہ پارٹی امور چلائیں،
لہذا الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے پر انتخابات نشان نہ دیں، تفصیلی فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا کہ جب الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے ایک سال کا وقت دیا اس وقت تحریک انصاف حکومت میں تھی، اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے، اور اس وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی تحریک انصاف کی حکومتیں تھیں، تفصیلی فیصلہ کے مطابق متعدد نوٹسز جاری کرنے اور اضافی وقت دینے کے باوجود تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے ، تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا، فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ 10 جنوری 2024 کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر 2023 کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے، جسٹس فائز عیسیٰ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے درخواست گزار کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا کہا، 20 دن بعد پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق کچھ نہیں کر سکتا،
تفصیلی فیصلے کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو بھی نظر انداز کیا، پشاور ہائیکورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے حتمی فیصلے کا انتظار بھی نہ کیا، تاہم
لاہور ہائیکورٹ میں یہ معاملہ لارجر بینچ کے سامنے زیر سماعت تھا، پشاور ہائیکورٹ کے سامنے محض سرٹیفکیٹ کا معاملہ نہیں تھا بلکہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ تھا، اگر انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہی نہیں تو سرٹیفکیٹ کے معاملے کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے، فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا ایسے حالات میں مکمل اختیار ہے، پشاور ہائیکورٹ کا الیکشن کمیشن کے اختیارات میں دخل اندازی اختیارات سے تجاوز ہے ، ہائیکورٹ کیسے الیکشن کمیشن کے 22 دسمبر کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے،

Leave a reply