سپریم کورٹ،شوکت عزیز صدیقی کیس میں سابق فوجی افسران کوفریق بنانے کی درخواست دائر کر دی گئی
درخواست میں سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو فریق بنانے کی استدعا کی گئی، بریگیڈئیر ریٹائرڈ عرفان رامے، بریگیڈیئر ریٹائرڈ فیصل مروت، بریگیڈیئر ریٹائرڈ طاہر وفائی کو فریق بنانے کی استدعا کی گئی،
سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی،سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو فریق بنانے کی استدعاکی گئی،سابق جج شوکت عزیز نے درخواست اپنے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر کی

قبل ازیں ،اسلام آباد ہائی کورٹ سے برطرفی کے خلاف جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی درخواست پر سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی،جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان بینچ میں شامل ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کی تبدیلی پر وضاحت کر دی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ درخواست پر گزشتہ سماعت کب ہوئی تھی؟ حامد خان نے کہا کہ آخری سماعت 13 جون 2022 کو ہوئی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ افسوس کی بات ہے آج کل ہر کوئی فون اٹھا کر صحافی بنا ہوا ہے،پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی روشنی میں یہ بینچ تشکیل دیا،پہلے اس بینچ میں کون کون سے ججز تھے، وکیل حامد خان نے کہا کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس سنا،بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود ،جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس مظہر عالم میاں ، اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہم اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہتے،باقی ججز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں ،میں نے بنچ سے کسی کو نہیں ہٹایا، بینچوں کی تشکیل اتفاق رائے یا جمہوری انداز میں ہو رہی ہے، موبائل ہاتھ میں اٹھا کر ہر کوئی صحافی نہیں بن جاتا،صحافی کا بڑا رتبہ ہے،حامد خان نے کہا کہ آج کل جمہوریت کا زمانہ ہے، اس وقت جمہوریت مشکل حالات میں ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپکی معاونت درکار رہے گی، جمہوریت چلتی رہے گی, آپ نے اسے آگے لے کر چلنا ہے، آج کل فون پکڑ کر صحافی بن جاتے ہیں اور یوٹیوب چینل جاتا ہے، جبکہ صحافی کا رتبہ بہت اونچا ہوتا ہے،اِس کیس کو نئے سرے سے سننا ہو گا،

شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آگئے،وکیل حامد خان نے کہا کہ کیس میں بنچ تبدیل ہو گیا ہے، اس سے پہلے جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجازالاحسن بنچ میں تھے،جسٹس مظہر عالم اور جسٹس سجاد علی شاہ بھی بنچ میں شامل تھے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس کیس میں بنچ بدل چکا ہے اور اب نئے سرے سے دلائل شروع کرنا ہوں گے،آج کل ہر کوئی موبائل پکڑ کر یوٹیوب پر ویڈیو بنا کر سمجھتا ہے کہ وہ صحافی ہے،اس بنچ کو بنانے کا فیصلہ ججز کمیٹی نے کیا،کوشش یہی ہوتی ہے کہ ججز کمیٹی اتفاق رائے سے فیصلے کرے لیکن فطری طور پر یہ ممکن نہیں،شوکت صدیقی کیس میں نیا بنچ بنانا کمیٹی کا متفقہ فیصلہ تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ کو اس بنچ کے کسی رکن پر اعتراض تو نہیں ہے؟وکیل حامد خان نے کہا کہ نہیں اس بنچ کے کسی رکن پر اعتراض نہیں، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آج کل ویسے بھی اعتراض کا زمانہ ہے،

دوران سماعت ایڈووکیٹ حامد خان نے شوکت عزیز صدیقی کی راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر کا متن پڑھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اسوقت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کون تھے،حامد خان نے کہا کہ اس وقت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی تھے، شوکت عزیز صدیقی پر 4 ریفرنسز بنائے گئے، ایک ریفرنس یہ بنایا کہ سرکاری رہائش گاہ پر شوکت عزیز صدیقی نے زائد اخراجات کیے،ہم نے کونسل میں درخواست دی کہ ججز کی سرکاری رہائش گاہوں پر ہونے ولے اخراجات کی مکمل تفصیل دیں، کونسل نے جواب دیا جو مانگ رہے ہیں وہ غیر متعلقہ ہے، ایک ریفرنس 2017 کے دھرنے کی بنیاد پر بنایا گیا، جس میں شوکت عزیز صدیقی نے بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ ریمارکس دئیے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں عدالتی ریمارکس پر ریفرنس بنایا گیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ شوکت صدیقی کے خلاف شکایات کنندگان کون تھے، حامد خان نے کہا کہ رہائش گاہ پر زائد اخراجات کے شکایت کنندہ سی ڈی اے ملازم انور گوپانگ تھے،ایک ریفرنس ایڈووکیٹ کلثوم اور ایک سابق ایم این اے جمشید دستی نے بھیجا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ جمشید دستی کس سیاسی جماعت کا حصہ تھے؟ حامد خان نے کہا کہ مجھے کنفرم نہیں لیکن شاید آزاد حیثیت میں ہونگے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یعنی آپ کہ رہے ہیں جمشید دستی مکمل آزاد نہیں تھے، حامد خان نے کہا کہ راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر پر جوڈیشیل کونسل نے خود نوٹس لیا، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ جوڈیشیل کونسل کو کیسے ہتا چلا کہ کسی جج نے تقریر کی ہے؟حامد خان نے کہا کہ ایجینسیوں نے شکایت کی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ریکارڈ دیکھ کر بتائیں وہاں کیا لکھا ہوا ہے،حامد خان نے کہا کہ ریکارڈ میں 22 جولائی 2018 کا رجسٹرار کا ایک نوٹ موجود ہے،

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جن دو شخصیات پر الزام لگا رہے ہیں ان کو فریق تو بنائیں، ہم مفروضوں پر کیس نہیں سنیں گے، یہاں صحافی بھی بیٹھے ہیں آپ جو بات یہاں کر رہے ہیں اخباروں کی زینت بنے گی، موبائل اٹھا کر صحافی بننے والوں کو سوچنا چاہیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا فیصلہ آچکا ہے،
سپریم کورٹ میں اب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت بنچز تشکیل دیئے جاتے ہیں،ادارے نہیں بولتے ادارے میں بیٹھی شخصیات ہی بولتی ہیں، میرا ایک اصول ہے کہ جس پر الزام لگاو اس کو بھی سنو ممکن ہے وہ الزامات تسلیم کر لے،کورٹ میں صحافی بیٹھے ہیں اور کل اس شخص کا نام اخبارات کی زینت بن جائے گا، ہم کسی کو کچھ لکھنے سے تو نہیں روک سکتے، آپ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں اسے فریق بنانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ مجھے فریق بنانے پر کوئی اعتراض نہیں،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں کیا اس نے کسی فورم پر آپ کو جواب دیا؟کیا سپریم جوڈیشل کونسل نے اس شخص کو نوٹس کیا تھا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے کہا کہ شاید میں غلط ہوں لیکن ادارے برے نہیں ہوتے لوگ برے ہوتے ہیں،ہم شخصیات کو برا نہیں کہتے، اداروں کو برا بھلا بولتے ہیں، اداروں کو لوگ چلاتے ہیں،ملک میں تباہی کی وجہ لوگ شخصیات کی بجائے اداروں کوبدنام کرتے ہیں، ملک کی تباہی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ شخصیات کے بجائے اداروں کو برا بھلا کہتے ہیں،حامد خان نے کہا کہ فیض حمید کو فریق بنانے کا جوڈیشل کونسل نے موقع نہیں دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اب تو آپ کے پاس موقع ہے اب کیوں نہیں فریق بنا رہے؟ کسی کی پیٹھ پیچھے الزام نہیں لگانے دینگے، اس اعتبار سے تو سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ درست ہے، حامد خان نے کہا کہ فیض حمید کو فریق بنانے پر اعتراض نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فریق بنا کر ہم پر احسان نہ کریں، اداروں پر الزام نہیں لگانے دینگے،

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے الزام ہائی کورٹ چیف جسٹس پر لگایا تھا، جسٹس انور کانسی کو بھی فریق نہیں بنایا گیا، ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا فیض حمید کو کسی اور درخواست گزار نے فریق بنایا ہے؟وکیل بار کونسل نے کہا کہ فیض حمید کو نہیں آئی ایس آئی کو فریق بنایا ہے،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ انور کانسی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جواب جمع کرایا تھا، حامد خان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جواب جمع کروایا تو سماعت کا موقع ہی نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اوپن کورٹ میں ریفرنسز کی سماعت کا حکم دیا تھا، سپریم جوڈیشل کونسل نے صرف ابتدائی سماعت کی تھی باضابطہ انکوائری ابھی ہونی تھی، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے اپنی تقریر کا متن بیان حلفی پر سپریم جوڈیشل کونسل کو کیوں نہیں دیا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کچھ ہمیں بھی سن لیں،ہم آپ کو کسی کو فریق بنانے پر مجبور نہیں کریں گے ،ہر شعبے میں اچھی اور بری شخصیات ہوتی ہیں، وکلاء میں بھی اچھے اور برے ہیں،

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو کیس میں فریق بنانے کا فیصلہ کر لیا،سپریم کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کی سماعت کل 10:30 تک ملتوی کر دی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے جن پر الزام لگایا اس کو فریق بنائیں ورنہ دوسرے نکتے پر دلائل دیں،کل ہوسکتا ہے جس کو فریق بنائیں ان کو عدالت نوٹس جاری کرے،اگر فریق بنانے کی درخواست آج دائر کرتے ہیں تو کل نوٹس جاری کر دینگے، حامد خان نے آج ہی فیض حمید اور انور کانسی کو فریق بنانے کی درخواست دائر کرنے کی یقین دہانی کرا دی ،حامد خان نے کہا کہ جن پر الزام لگایا ہے انہیں فریق بنانے کی درخواست کل تک دائر کر دینگے،عدالت نے مزید سماعت کل تک ملتوی کردی

تین سال بیت گئے،ریٹائرمنٹ کی تاریخ گزرچکی اب تو کیس سن لیں،

سوچ بھی نہیں سکتا کہ بنچ کا کوئی رکن جانبدار ہے،سابق جج شوکت عزیز صدیقی

جسٹس شوکت صدیقی ملکی تاریخ کے دوسرے جج ہیں جن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی گئی ہے  اس سے قبل 1973 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت علی کو بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے پر عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔

اکتوبر 2018 میں سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر صدر مملکت کی منظوری کے بعد وزارت قانون نے متنازع خطاب پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینیئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی بار میں خطاب کے دوران حساس اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا

Shares: