سپریم کورٹ، میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے کی،سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اعلیٰ عدلیہ کے جسٹس منیب اختر،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کی قدرتی حدود سےمطابقت پر زور دیا گیا ہے، آرٹیکل 51 اور 106 سے 3 ضروری نکات بتانا ضروری ہیں، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح دی ہے، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا۔

آپ اپنی نہیں آئین کے مطابق تشریح بتائیں۔چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل صدیقی سے کہا کہ الیکشن کمیشن یا آپ کیا سوچ رہے ہیں وہ چھوڑ دیں، الیکشن کمیشن بھی آئین پر انحصار کرے گا، الیکشن کمیشن آئین کی غلط تشریح بھی کر سکتا ہے، عدالت کسی کی طرف سے آئین کی تشریح پر انحصار نہیں کرتی، آپ اپنی نہیں آئین کے مطابق تشریح بتائیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور فیصل صدیقی میں بلے کے نشان پر اہم بحث ہوئی، وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آپ کے فیصلے کی جس لیول پر انٹرپٹیشن کی آپ دیکھئے گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا،وکیل نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریق کیلئے کوئی چوائس نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سیاسی باتیں نہ کریں،صرف آئین پر رہیں،وکیل نے کہا کہ ایک رات پہلے انتخابی نشان لے لیا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کا تو نہیں لیا، آپ تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں آپ کا نشان کیا ہے؟ وکیل نے جواب دیا ،گھوڑا

پی ٹی آئی سیاسی جماعت موجود ہے، آزاد امیدوار اس میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟ چیف جسٹس
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ تحریکِ انصاف نظریاتی،بلے باز کے نشان سے متعلق وضاحت کروں گا کہ کیا ہوا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کیا ہوا، آپ فیکٹس پر ذرا فوکس کرلیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انتخابی نشان لئے جانے کے بعد معاملہ کنفیوژ ہوگیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بالکل آسان ہے، پی ٹی آئی سیاسی جماعت موجود ہے، آزاد امیدوار اس میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟ اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی، ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین پر عمل نہ کرکے ملک کی دھجیاں اڑا دی گئیں، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آئین کی آپ کی تشریح الگ ہے میری الگ ہے،

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ تمام امیدوار پی ٹی آئی کے تھے حقائق منافی ہیں، پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کروا کر واپس کیوں لیے گئے، جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ جنھوں نے الیکشن لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی انھیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں، جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو آئین میں دیے گئے الفاظ ہی غیر موثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل تو پولیٹیکل پارٹی ہی نہیں ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارٹی الیکشن نہیں لڑتی بلکہ امیدوار الیکشن لڑتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے دلائل مفادات کا ٹکراؤ ہیں، یا آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کریں یا پی ٹی آئی کی نمائندگی کریں، ہم نے صرف دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، نظریاتی میں گئے اور پھر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں، ملک میں ایسے عظیم ججز بھی گزرے ہیں جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا،صرف آئین پر رہیں،

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد پولیٹیکل پارٹی نہیں رہی،لیکن پولیٹیکل ان لسٹڈ پولیٹیکل پارٹی تو ہے، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی اگر اب بھی پولیٹیکل پارٹی وجود رکھتی ہے تو انھوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی، اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی، یہ تو آپکے اپنے دلائل کے خلاف ہے،

جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں،چیف جسٹس
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیا تو اپیل کیوں دائر نہیں کی،وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ اس سوال کا جواب سلیمان اکرم راجہ دیں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ رولز آئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا دس فیصد والی سیاسی جماعتوں کو ساری مخصوص نشستیں دے دیں گے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیے اڑائی گئیں کیونکہ آئین پر عمل نہیں ہوتا،میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے،پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں، ہمارے آئین کو بنے پچاس سال ہوئے ہیں،امریکہ اور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی،مشکل سے ملک پٹری پہ آتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے،پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت فورٹریس آف ڈکشنری نہیں ہونا چاہیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جن ملکوں کا آپ حوالہ دےرہے ان کے آئین کل نہیں بنے،پاکستان کے آئین کو بنے پچاس سال ہوئے اور اس کا حال کیا کیا ہے، انگلستان میں لکھا ہوا آئین نہیں، تاریخ دیکھتے ہیں،

جنھوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں، انھیں اٹھا لیا گیا، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کر لے،جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنھوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں، انھیں اٹھا لیا گیا،یہ باتیں سب کے علم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کر لے، وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ میں آپکی باتوں سے مکمل متفق ہوں،

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عارف علوی پی ٹی آئی کے صدر تھے، کیا انہوں نے انتخابات کی تاریخ دی ، سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ تھا جو انتخابات نہیں کروا سکا،ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی،انتخابات ہم نے کروائے ، پی ٹی آئی نے تو لاہور ہائیکورٹ میں الیکشن رکوانے کی کوشش کی ، کبھی کبھی سچ بول دیا کریں ، باہر جا کر بڑے بڑے شو کر کےجھوٹ نا بولا کریں، الیکشن ہم نے کروائے تھے، تحریک انصاف اور ان کے صدر عارف علوی اور عمران خان تو الیکشن روکنے پر لگے ہوئے تھے۔الیکشن کمیشن ایک عرصے سے تحریک انصاف کو پارٹی الیکشن کروانے کا کہہ رہا تھا لیکن پارٹی الیکشن نہیں کروائے،عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہورہے تھے،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بلے کے فیصلے پر نظرثانی درخواست سے لا علمی کا اظہار کردیا
چیف جسٹس قاضی فائز جب 13 جنوری بلے کے نشان کے کیس کے فیصلے سے متعلق وضاحت دے رہے تھے تو وکیل فیصل صدیقی نے کہا میں اس پر بات نہیں کروں گا کیونکہ نظرثانی درخواست زیر التوا ہے جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مجھے تو نہیں معلوم نظر ثانی درخواست دائر ہوئی ہے ،مجھے علم نہیں، پتہ کریں، حامد خان کئی بار ملے کبھی ذکر نہیں کیا، حامد خان نے بھی نظر ثانی درخواست دائر ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ گزشتہ سماعت پر بھی بات ہوئی تھی جسٹس اطہر من اللہ نے یاد دہانی کرائی تھی کہ نظر ثانی زیر التوا ہے اس لیے اس حوالے سے بات نا کی جائے .چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بلے کے فیصلے پر نظرثانی درخواست سے لا علمی کا اظہار کردیا،آفس سے تفصیلات مانگ لیں،پی ٹی آئی وکیل سے کہا کہ آپ نے یاددہانی نہیں کروائی.

الیکشن کمیشن ووٹرز کے حقوق کا محافظ ہونے کے بجائے مخالف بن گیا ، جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو جماعت سیاسی نہیں اور الیکشن نہیں لڑی اس کی مخصوص نشستیں کہاں جائیں گی،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے خیال میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن ووٹرز کے حقوق کا محافظ ہونے کے بجائے مخالف بن گیا ہے، مخصوص نشستیں سنی اتحاد کو ملنی ہیں یا پی ٹی آئی کو یہ الیکشن کمیشن نے طے کرنا تھا،

آپ کو 80 سے زائد سیٹیں ملیں، آپ کو فائدہ ہوا، آپ سے کچھ چھینا نہیں گیا،چیف جسٹس
جسٹس اطہر من اللہ اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ میں بحث ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتا آئین کو پسند کیوں نہیں کرتے؟ آئین آئین ہوتا ہے، وکیل نے کہا کہ ایک بات کرنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نہیں، آپ سیاسی بات کرتے ہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے، ہم یہاں انسانی حقوق کے دفاع کیلئے موجود ہیں، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ اگر سنی اتحاد اور تحریک انصاف ایک ہو جاتیں تو معاملہ حل ہوجاتا لیکن وہ بھی نہیں کیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو 80 سے زائد سیٹیں ملیں، آپ کو فائدہ ہوا، آپ سے کچھ چھینا نہیں گیا، عدالت سمجھتی سیاسی جماعت کی ممبرشپ اہمیت کی حامل ہوتی،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جنہوں نے آپ کو جوائن کیا کیا ان میں کوئی غیر مسلم ہے، اہم سوال ہے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں، دیکھنا پڑےگا،

پاکستان کا جھنڈا دیکھیں اس میں کیا اقلیتوں کا حق شامل نہیں ،کیا آپ کی پارٹی کا آئین ، آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں،چیف جسٹس
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کیمطابق سنی اتحاد کونسل کا آئین خواتین اور غیر مسلم کو ممبر نہیں بناتا کیا یہ درست ہے؟وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ خواتین کو نہیں غیر مسلم کی حد تک یہ پابندی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کا جھنڈا دیکھیں اس میں کیا اقلیتوں کا حق شامل نہیں ،قائد اعظم کا فرمان بھی دیکھ لیں ،کیا آپ کی پارٹی کا آئین ، آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں،بطور آفیسر آف کورٹ اس سوال کا جواب دیں ،وکیل نے کہا کہ میں اس سوال کا جواب اس لئے نہیں دے رہا کہ یہ اتنا سادہ نہیں،ہر آزاد ایم این اے، ایم پی ائے کا حق ہے کہ جس جماعت میں شامل ہو، میں دفاع نہیں کروں گا کہ پی ٹی آئی، سنی اتحاد نے بڑی غلطیاں کیں، مخصوص نشستیں صرف متناسب نمائندگی کے سسٹم کے تحت ہی دی جا سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کے نظام کے علاوہ مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا کوئی تصور نہیں،مخصوص نشستیں امیدواروں کا نہیں سیاسی جماعتوں کا حق ہوتا ہے،الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتا ہے، دوسری جانب الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ شمولیت صرف پارلیمان میں موجود جماعت میں ہوسکتی ہے،الیکشن کمیشن کی یہ تشریح خودکشی کے مترادف ہے،

وقت آ گیا ہے کہ ملک آئین کے مطابق چلایا جائے،چیف جسٹس
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن آج بھی پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت مانتا ہے، ایوان کو نامکمل نہیں چھوڑا جا سکتا، میری نظر میں ایوان کو مکمل کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،الیکشن کمیشن ووٹرز کے حقوق کا محافظ ہونے کے بجائے مخالف بن گیا ہے، مخصوص نشستیں سنی اتحاد کو ملنی ہیں یا پی ٹی آئی کو یہ الیکشن کمیشن نے طے کرنا تھا، ہمارے ہوتے ہوئے بھی بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، ملک آئین کے مطابق چلا ہی کب ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ملک آئین کے مطابق چلایا جائے، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل مکمل کر لئے.

وکیل اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسدجان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ خلاف آئین ہے،فیصل صدیقی اپیل کے حوالے سے تفصیل سے دلائل دے چکے،ہماری تین درخواستیں تھیں عدالت چاہے تو معاونت کےلیے تیار ہوں،مزید معاونت بھی کردوں گا، وکیل اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسدجان کے دلائل مکمل کرلیے.

سب کچھ ہے آپ کے پاس لیکن کاغذات نہیں ہیں،جسٹس منصور علی شاہ
کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کردیا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی ویمن ونگ کی صدر ہیں، الیکشن ایکٹ کیمطابق کوئی شخص دو جماعتوں کا رکن نہیں ہو سکتا، کنول شوزب کوپہلے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونا پڑے گا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کنول شوزب کیا اکیلی تھیں جو سنی اتحاد کونسل میں نہیں گئیں؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنول شوزب عام انتخابات میں منتخب نہیں ہوئیں، مخصوص نشستیں پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کو ملنے پر انہیں منتخب ہونا تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اوکے، تو یہ متاثرہ فریق ہیں، کیا کنول شوزب نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنول شوزب انتخابات میں کامیاب نہیں ہوئی تھیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کنول شوزب متعلقہ فورم سے رجوع کیے بغیر کیسے براہ راست سپریم کورٹ آ سکتی ہیں؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا آرڈر چیلنج کیا گیا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس عدالت میں چیلنج کیا تھا اس کا فیصلہ کہاں ہے؟ وکیل نے کہا کہ فیصلہ کچھ دیر تک ریکارڈ کا حصہ بنا دوں گا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو حکم نامہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہی نہیں کیا گیا اس کا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کنول شوز ب سنی اتحاد کونسل کی فہرست میں شامل ہیں؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنول شوزب کا نام سنی اتحاد کونسل کی فہرست میں موجود ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی فہرست میں نام دکھائیں،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فہرست لی ہی نہیں تو ریکارڈ سے کیسے دکھا سکتا ہوں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سب کچھ ہے آپ کے پاس لیکن کاغذات نہیں ہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا تھا کہ آٹھ فروری کے حوالے سے بھی درخواست زیر التواء ہے،عدالت نے ہر غیرمتعلقہ معاملے پر ازخودنوٹس لیا ہے لیکن الیکشن پر نہیں، انتخابات سے متعلق دائر درخواست سن لی جائے تو شاید یہ تمام ایشوز حل ہوجائیں،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ہیں،وکیل نے کہا کہ کسی کا کیس تباہ نہیں کر رہا، سمجھ نہیں آ رہا آپ بار بار یہ کیوں کہہ رہے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ دلائل کیلئے کتنا وقت لیں گے،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایک گھنٹے سے زائد وقت لوں گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک گھنٹہ آپ کو نہیں دے سکتے،اس کیس کو ہم اتنا طویل نہیں کر سکتے،ہزاروں دیگر مقدمات زیر التوا ہیں،زیر التوا مقدمات والوں پر تھوڑا رحم کر لیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں جسٹس اطہر من اللہ سے وسیع تناظر میں متفق ہوں،میری رائے میں پی ٹی آئی کو ہمارے سامنے آنا چاہیے تھا، پی ٹی آئی کو آکر کہنا چاہئے تھا یہ ہماری نشستیں ہیں،

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا ایسے حالات تھے کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو سُنی اتحاد کونسل میں جانا پڑا؟ کیا پی ٹی آئی کو پارٹی نہ ماننے والے آرڈر کیخلاف درخواست اسی کیس کے ساتھ نہیں سُنی جانی چاہئے؟وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سُپریم کورٹ نے ہماری اپیل واپس کر دی، رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کر دیئے تھے، رجسٹرار آفس نے کہا انتخابی عمل نشان الاٹ کرنے سے آگے بڑھ چکا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ اہم ترین معاملہ تھا لیکن آپ نے اپیل دائر نہیں کی، چیمبر اپیل دائر نہ کرنے سے اہم ترین معاملہ غیرموثر ہوگیا، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا چیمبر اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے؟جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ تکنیکی معاملات میں جانے کے بجائے عدالت 184/3 کا اختیار کیوں نہیں استعمال کر سکتی؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ سُنی اتحاد کونسل اگر بیان دے کہ کنول شوزب انکی امیدوار ہونگی تو درخواست سن سکتے ہیں،

ملک مجبوریوں پر نہیں چل سکتا۔ جس نے آپکو غلط مشورہ دیا اس پر مقدمہ دائر کریں۔ چیف جسٹس
جسٹس اطہرمن اللہ نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ سلمان صاحب 86 لوگ ایک جماعت سے الیکشن لڑ کر بعد میں ایک شخص کو جوائن کر گئے کیوں؟ ہمیں وہ مجبوری تو بتا دیں وہ مجبوری کیا تھی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجبوریوں پر جائیں تو ملک نہیں چلے گا، کل کوئی کہے گا مجبوری ہے سگنل پر رک نہیں سکتا، سلمان اکرم راجہ صاحب بات سن بھی لیا کریں کیا ہم اب آپکے مفروضوں پر چلیں گے یا آئین پر چلیں گے۔ کل کو ہر کوئی آکر کہہ دے گا کہ یہ مجبوری تھی اسلئے آئین چھوڑ دیں، ملک مجبوریوں پر نہیں چل سکتا۔ جس نے آپکو غلط مشورہ دیا اس پر مقدمہ دائر کریں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہاں عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا،فاطمہ جناح نے انتخابات میں حصہ لیا تو تب بھی عوام سے حق چھینا گیا،مکمل سچ کوئی نہیں بولتا،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سیاسی بیانات میں نہیں جاوں گا آئین و قانون پر دلائل دوں گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جیتنے کے بعد آزاد اُمیدوار سُنی اتحاد کونسل میں کیوں شامل ہوئے؟ آپ کو پی ٹی آئی میں شامل ہونا چاہئے تھا، آپ پی ٹی آئی کا انتخاب کرتے تو آپ کا کیس اچھا ہوسکتا تھا.

سپریم کورٹ، دوران سماعت خاتون کے موبائل فون سے لائٹ جلنے پر چیف جسٹس کا نوٹس
سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران خاتون کے فون سےہری لائٹ جلنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نوٹس لے لیا،سلمان اکرم راجہ دلائل دے رہے تھے کہ اس دوران خاتون کے موبائل فون سے لائٹ جلی جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ یہ پیچھے سے کون تصویر لے رہا تھا؟وکلا نے کہاکہ خاتون کے پاس ڈائری ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ خاتون بیٹھی ہیں، کیا گرین چیز سے پکچر لے رہی ہیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خاتون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کھڑی ہو جائیں ، آپ کے ہاتھ میں کیا چیز ہے ؟خاتون کے فون میں دیکھیے کیا کر رہی ہیں اور ہری لائٹ کیا تھی جو دیکھنے میں آئی؟

آپ آئین کے بر خلاف جا رہے ،آج تک کبھی ایسا ہوا نہیں کہ مخصوص نشستوں کو خالی رکھا جائے،چیف جسٹس
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی تو جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 86امیدوار آزاد منتخب نہیں ہوئے، لوگوں نے انہیں سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے طور پر منتخب کیا، 86 امیدواروں کو کیوں لگا کہ ایک ہی جماعت سے منسلک ہونا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سلمان صاحب تھوڑا سا برداشت رکھیں، اگر آپ اپنا آزاد کا سٹیٹس برقرار رکھیں گے تو پھر بھی اُنہی سیاسی جماعتوں کو جائیں گی آپ کو نہیں ملیں گی، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سیاسی جماعت کو جیتی گئی نشستوں سے زیادہ نہیں مل سکتیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے توشروع میں کہا تھا ایک رکن بھی پارلیمنٹ میں خالی نہیں چھوڑا جاسکتا، آپ کہہ رہے کہ سنی اتحاد کونسل کو جوائن کرنا کوئی مسئلہ نہیں ,ہر چیز قانون کی بنیاد پر ہوتی ہے ,بظاہر قانون کی زبان بڑی واضح ہے ,ہر سیاسی جماعت کی اپنی منزل ہے ،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد مشاورت سے سنی اتحاد کونسل کو اپنایا گیا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے درست کہا کہ جب آپ آزاد امیدوار ہیں تو پھر ایسی جماعت میں جانا ہوگا جس نے سیٹ انتخابات میں حاصل کی ہوں گی ، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے کہ الیکشن میں نہ جیتے آزاد ملے تو سیٹ حاصل کرلی ؟ جواضح کردیا گیا ہے کہ جو سیٹیں آپ نے جیتی ان میں آزاد شامل ہوں گے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن میں جیتی گئی سیٹیں اور حاصل کردہ دونوں میں فرق ہیں، وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حاصل کردہ سیٹوں سے مطلب جیتی گئی سیٹ لیا جا رہا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت ماننے سے کونسا آئینی اصول کی خلاف ورزی ہوگی ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عوام کو پتہ ہونا چاہیے کون جیتا کون آگیا ،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 25 بڑی سیاسی جماعتیں ہیں ووٹر سب کے منشور نہیں پڑھتا ج،چھوٹی سیاسی جماعت میں اگر آذاد امیدوار شامل ہوجاے تو کیا ہوگا ؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی ارب پتی سیاسی جماعت خرید لے ؟کل کوئی ارب پتی کہے کیا الیکشن لڑنا پارٹی اور آزاد امیدوار خریدوں گا پھر ؟جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 86 نمائندے آزاد نہیں تھے انہیں پی ٹی آئی کی وجہ سے ووٹ پڑے، وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم آزاد امیدوار ہونے کی ہی وجہ سے سیاسی جماعت میں شامل ہوئے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سمجھ لیں کوئی آزاد امیدوار نہیں ؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر آذاد امیدوار آزاد ہی رہتے تو پھر مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا ؟وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پھر مخصوص نشستیں خالی رہتیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ تو آپ آئین کے بر خلاف جا رہے ہیں،آج تک کبھی ایسا ہوا نہیں مخصوص نشستوں کو خالی رکھا جائے ،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ شروع میں الیکشن کمیشن نے ساری سیٹیں سیاسی جماعتوں میں تقسیم کردی،بعد میں مقدمہ بازی کی وجہ ان سیٹوں کو روک دیا گیا،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی وجہ سے ہم آزاد ممبر ہوئے ،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مکمل طور پر غلط سمجھا گیا.

پی ٹی آئی نے انتخابات میں بہت غلط فیصلے کیے،پی ٹی آئی نے اپنی غلطیوں کو بار بار دہرایا،جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ گر آزادامیدوار ایک جماعت میں دو تین ماہ بعد شامل ہوتے تو کیا جماعت کو مخصوص نشستیں ملنے کی اہلیت ہوگی،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اسی وجہ سے تین دنوں میں شامل ہونے کا قانون ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بہت ہی عجیب سا قانون ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ تو ماننے والی بات ہے کہ پی ٹی آئی نے انتخابات میں بہت غلط فیصلے کیے،پی ٹی آئی نے اپنی غلطیوں کو بار بار دہرایا ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ ہمارے سامنے درخواست گزار سنی اتحاد کونسل ہے آپ کو پی ٹی آئی کا امیدوار سمجھا جائے یا سنی اتحاد کونسل کا،آپ پی ٹی آئی امیدوار کے وکیل ہیں سنی اتحاد کونسل کی بات نہیں کر سکتے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بات تو ماننے والی ہے مجموعی طور پرتحریک انصاف نے برے انداز میں کیس کو چلایا ،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت کے سامنے چودہ مختلف فیصلے رکھوں گا ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ سنی اتحاد یا پی ٹی آئی کو چاہتے ہیں،صرف درخواست گزار کی بات ہو رہی ہے، وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ صرف درخواست گزار کی انفرادی بات نہ کی جائے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ ہمارے سوالات کے جوابات نہیں دے رہے ،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں عدالت سے معذرت خواہ ہوں ،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ اپنے درخواست گزار کی بات کریں دوسروں کی بات کیسی کر رہے ہیں، ؟جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز نے سنی اتحاد کونسل جوائن کرنے پر احتجاج کیا،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ نہیں ہمارے خلاف صرف الیکشن کمیشن تھا،

الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ، عزت کا حقدار ، یہی مسئلہ ہے کہ پاکستان میں کچھ پھلنے پھولنے نہیں دیاجاتا،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کی غلطیوں کا حل ہم ڈھونڈیں؟ ہم نے الیکشن کمیشن کو نہیں منظور کیا، آپ نے کیا، غلطیاں تو کی نا،کنول شوذب کوئی عوام کی نمائندہ نہیں ہیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 2018 میں ایک سیاسی جماعت مشکلات کا شکار تھی، 2024 میں بھی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر آپ کو الیکشن کمیشن میں خرابی محسوس ہوئی درخواست دائر کریں یا قوانین میں ترامیم کریں، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، عزت کا حقدار ہے، یہی مسئلہ ہے کہ پاکستان میں کچھ پھلنے پھولنے نہیں دیاجاتا،سپریم کورٹ بھی عزت کے ساتھ برتاؤ کی حقدار ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 86 ممبران نے کاغذات جمع کرواتے وقت کہاکہ تحریک انصاف کے ہیں؟ کیا عوام کو انتخابات کے سسٹم پر بھروسہ ہے؟ کیوں سچ نہیں بول سکتے؟وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرا دل کچھ اور کہہ رہا ہے لیکن مجھے دماغ کے ساتھ دلائل دینے ہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں سے کسی کو اختلاف نہیں، آزاد امیدواروں کو کوئی تو شناخت ملے،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسا نہیں کہہ سکتےکہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعت کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں،میں بطور آزاد امیدوار ہی کیس کو دیکھ رہا، بطور پی ٹی آئی امیدوار نہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ صاحب آپ جذبات میں دلائل دے رہے ہیں،جب سی ٹی اسکین کروانے جائیں تو ایک گولی دیتے ہیں جو ریلیکس کر دیتی ہے،از راہ تفنن بات کر رہا ہوں سلمان اکرم راجہ صاحب آپ بھی وہ گولی کھا لیا کریں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ جمیعت علمائے اسلام میں بھی شامل ہوسکتےتھے، کس کی رائے تھی سنی اتحاد میں شامل ہونے کی؟وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ممکن تھا کہ دیگر جماعتوں کے ساتھ سیاسی ذہنیت نہ ملے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا آپ اپنے ووٹرز کا حق دے رہے؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمیں الیکشن کمیشن نے ایسا کرنے پر مجبور کیا، ووٹرز ہمارے ساتھ ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اچکزئی صاحب کی جماعت میں بھی جا سکتے تھے،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمیں ایسی جماعت کی تلاش تھی جس کے ساتھ چل سکیں کل وہ ہم میں ضم ہو سکے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کو انتخابی نشان والے کیس میں بھی کہا تھا مخصوص نشستوں کا مسئلہ ہو تو عدالت آجانا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی غلط تشریح سے مسئلہ پیدا ہوا تو کیا یہ عدالت اسے درست کر سکتی ہے؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر عدالت آرٹیکل 187 کے تحت مکمل انصاف کرے تو میں اسے عظیم فیصلہ کہوں گا، پاکستان کے عوام بھی اس فیصلے پر جشن منائیں گے، سنی اتحاد نے انتخابات سے قبل اعلان کیا کہ تحریک انصاف میں ضم ہو جائیں گے، جب تحریک انصاف بطور آزاد انتخابات لڑی تو حامدرضا نے بھی آزادامیدوار الیکشن لڑا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ حامدرضا اپنی ہی جماعت سے الیکشن نہیں لڑے ؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حامد رضا بطور تحریک انصاف امیدوار الیکشن لڑ رہے تھے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو یہی نہیں معلوم کہ حامدرضا نے اپنے کاغذات میں کس پارٹی کا نام لکھا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ حامدرضا نے بطور آزادامیدوار انتخابات میں حصہ لیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو کنول شوذب کا معلوم نہیں، حامدرضا نے کیوں آزادامیدوار الیکشن لڑا، سنی اتحاد کہاں ہے؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی کہ صاف شفاف انتخابات کروائے،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ 86 لوگوں کی بات نہ کریں، آپ ایک درخواستگزار ہیں، 86 درخواستگزار نہیں، ایم کیو ایم آپ کی حکومت کا حصہ تھی؟وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ سیاسی سوال ہے، ہم آئین کی تشریح چاہتےہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کل ایم کیو ایم والے آپ کے ساتھ تھے، آج نہیں، کل سنی اتحاد نے بھی ایسا کیا تو ہمارے پاس آئیں گے؟کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل ہوگئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کل صبح ساڑھے نو بجے کیس کی سماعت کریں گے،کل تمام وکلا کو سن کر کیس ختم کریں گے،تمام وکلا مختصر دلائل دیں،پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک،الیکشن کمیشن کے وکیل اور اٹارنی جنرل کے دلائل رہ گئے ہیں،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں ایک متاثرہ فریق کی نمائندگی کر رہا ہوں،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوایا،جس میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کی وکیل فیصل صدیقی اور کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل مکمل کرلیے ، کیس کی آئندہ سماعت 25 جون کو دوبارہ ہوگی ،

الیکشن کمیشن کا مخصوص نشتوں کی الاٹمنٹ کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہے،الیکشن کمیشن
قبل ازیں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشتوں کا کیس،الیکشن کمیشن نے جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا،سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشتیں الاٹ نہیں کی جاسکتیں، مخصوص نشتوں کی فہرست جمع کرانے کی آخری تاریخ 24 جنوری تھی،سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشتوں کیلئے کوئی فہرست جمع نہین کرائی۔امیداروں کی طرف سے تحریک انصاف نظریاتی کا انتخابی نشان دینے کا سرٹیفیکیٹ مانگا گیا۔ امیدوار تحریک انصاف نظریاتی کے انتخابی نشان سے خود دستبردار ہوگئے۔تحریک انصاف نظریاتی کے انتخابی نشان سے دستبردار ہونے کے بعد امیدوار آزاد قرار پائے۔الیکشن کے بعد آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے۔سنی اتحاد کونسل کو الیکشن نے مخصوص نشتیں نہ دینے کا چار ایک سے فیصلہ دیا۔ پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل اپیل پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔سنی اتحاد کونسل مخصوص نشتوں کیلئے اہل نہیں۔ مخصوص نشتیں نہ دینے کے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ فیصلہ میں کوئی سقم نہیں۔ الیکشن کمیشن کا مخصوص نشتوں کی الاٹمنٹ کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے آئین کے مطابق غیر مسلم اس جماعت کاممبر نہیں بن سکتا۔سنی اتحاد کونسل آئین کی غیر مسلم کی شمولیت کیخلاف شرط غیر آئینی ہے۔ سنی اتحاد کونسل مخصوص خواتین اور مخصوص اقلیتوں کی سیٹوں کی اہل نہیں۔

سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیل پر سماعت 24 جون تک ملتوی

سپریم کورٹ، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کیخلاف کیس کی سماعت ملتوی

مخصوص نشستیں، فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں نظر نہیں آ رہا، مبشر لقمان

واضح رہے کہ 6 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے سے متعلق کیس میں پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا تھا،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کو اپنا مینڈیٹ واپس لینے کیلئے یہ اعتراف کرلینا چاہئیے کہ الیکشن والے دن بہت بڑی فاش غلطی ہوئی

بلیک میلنگ کی ملکہ حریم شاہ کا لندن میں نیا”دھندہ”فحاشی کا اڈہ،نازیبا ویڈیو

حریم شاہ کے خلاف کھرا سچ کی تحقیقات میں کس کا نام بار بار سامنے آیا؟ مبشر لقمان کو فیاض الحسن چوہان نے اپروچ کر کے کیا کہا؟

حریم شاہ..اب میرا ٹائم شروع،کروں گا سب سازشیوں کو بے نقاب، مبشر لقمان نے کیا دبنگ اعلان

میں آپکی بیویوں کے کرتوت بتاؤں گی، حریم شاہ کی دو سیاستدانوں کو وارننگ

Shares: