سپریم کورٹ میں گرمیوں کی 3 ماہ کی چھٹیوں کا نوٹیفیکشن جاری۔
ایک مقروض ملک جس میں سپریم کورٹ کا ایک جج ماہانہ تنخواہ اور مراعات کی مد میں کم و بیش 25 لاکھ روپے وصول کرتا ہے کونسی ایسی مشقت کرتا ہےکہ اسے تنخواہ اور مراعات سمیت 3 مہینے گھر بیٹھ کے آرام کرنا ہے۔
تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی 2 سے ڈھائی ماہ چھٹیاں دینے کا مقصد تو سمجھ میں آتا ھے کہ بچوں کو گرمی کی شدت سے بچایا جائے۔
لیکن سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان ایئر کنڈیشنڈ گھروں سے ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھ کر ایئرکنڈیشنڈ عدالتوں میں بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں زیر التوا مقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ سائلین برسوں اپنے کیس کی سماعت کا انتظار کرتے ہیں۔فراہمی انصاف میں پاکستان کو دنیا میں 118 ویں نمبر پہ لانے والے ان معزز جج صاحبان سے نہ حکومت سوال کر سکتی ہے نہ عوام۔
پہلی بات تو اعلیٰ عدلیہ سمیت ضلعی عدالتوں کے جج کوئی جسمانی مشقت نہیں کرتے کہ انہیں 3-3 ماہ کی چھٹیاں اور چھٹیوں کے دوران لاکھوں روپے ماہانہ قومی خزانہ سے ادا کئے جائیں۔دوسرا اگر سہل پسندی کی عادت نہیں جا سکتی تو 3 ماہ کی یہ چھٹیاں بغیر تنخواہ کے ہونی چاہییں۔ ایک غریب مقروض ملک میں جہاں لوگ بھوک سے خودکشیاں کررہے ہوں وہاں یہ عیاشی ناقابل فہم ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ججز یا عدلیہ کے بارے جائز بات کریں تو بھی توہین عدالت کا ڈر رہتا ہے جسکی وجہ سے حکومتیں خاموش تماشائی بنی تماشا دیکھتی ہیں پھر پیسہ کونسا انکی جیب سے جانا ہے۔ کھال تو غریب آدمی کی اترنی ہے۔