سپریم کورٹ کامخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا حکم

سنی اتحاد کونسل نہیں،پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حقدار،15 روز میں فہرست جمع کروائے، سپریم کورٹ
0
317
supreme

سپریم کورٹ، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست پر فیصلہ سنا دیا گیا
مخصوص نشستوں کے کیس کا تحریری مختصر فیصلہ جاری کر دیا گیا،سپریم کورٹ کا مختصر فیصلہ 17 صفحات پر مشتمل ہے ،فیصلے میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین کے اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں،جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں،فیصلے میں تحریک انصاف کے قرار دیے گئے 39 ارکان اسمبلی کی فہرست بھی شامل ہے،پاکستان تحریک انصاف کے 39 ارکان امجد علی خان ، سلیم رحمان، سہیل سلطان ارکان قرار دیئے گئے، بشیر خان جنید اکبر ، اسد قیصر ، شہرام ترکئی تحریک انصاف ارکان قرار دیئے گئے،انور تاج، فضل محمد خان ارباب عامر ایوب ، شاندانہ گلزار م ، پی ٹی آئی کے ارکان قرار دیئے گئے،اسامہ میلہ ،شفقت اعوان، علی افضل ساہی تحریک انصاف کے ارکان قرار دیئے گئے،خرم شہزاد ورک ، لطیف کھوسہ، رائے حسن نواز ، تحریک انصاف کے ارکان قرار دیئے گئے،عامر ڈوگر ،زین قریشی ، رانا فراز نون، صابر قریشی تحریک انصاف کے ارکان قرار دیئے گئے،اویس حیدر جھکڑ، زرتاج گل، بھی تحریک انصاف کے ارکان قرار دیئے گئے،آزاد ارکان قرار دئیے گئے ارکان میں علی محمد خان، شہریار آفریدی ،انیقہ مہدی شامل ہیں،احسان اللہ ورک ، بلال اعجاز ، عمیر خان نیازی ، ثناء اللہ خان مستی خیل بھی آزاد ارکان قرار پائے،پاکستان تحریک انصاف کے 39 ارکان امجد علی خان ، سلیم رحمان، سہیل سلطان ارکان قرا ر دیئے گئے، بشیر خان جنید اکبر ، اسد قیصر ، شہرام ترکئی تحریک انصاف ارکان قرار دیئے گئے،انور تاج، فضل محمد خان ارباب عامر ایوب ، شاندانہ گلزار پی ٹی آئی کے ارکان قرار دیئے گئے،اسامہ حمزہ ، صاحبزادہ محبوب سلطان ، وقاص اکرم شیخ ، بھی آزار ارکان قرار دیئے گئے،میاں محمد اظہر ، سید رضا علی گیلانی ، جمشید دستی ، خواجہ شیراز آزاد ارکان قرار دیئے گئے

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق مختصر تحریری فیصلہ جاری کر دیا،فیصلے کے ساتھ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے، چیف جسٹس اور جسٹس جمال مندوخیل کےاختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی یا اس کے کسی رہنما نے آزاد رکن قرار دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں کیا،تاہم اس حقیقت کے پیش نظر درخواستیں انتخابی کاروائی کا تسلسل ہے اس لیے عدالت کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دینے کا معاملہ دیکھ سکتی ہے،آئین کا آرٹیکل 51(1)(ڈی) خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کا ضامن ہے،جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لینے والے دن تک کوئی اور ڈیکلیریشن جمع نہیں کرایا وہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہیں،لہٰذا الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ شامل کر کے مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے،ایسے امیدوار جنہوں نے 24 دسمبر 2023 تک کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی اور انہوں نے خود کو آزاد یا کسی دوسری جماعت کے ساتھ وابستگی کا سرٹیفیکیٹ نہیں دیا وہ آزاد تصور ہوں گے،سنی اتحاد کونسل ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے آزاد ارکان کو حق حاصل ہے کہ وہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوں سکیں، جن لوگوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی ہے وہ اپنی رضامندی سے سنی اتحاد میں شامل ہوئے،

تحریک انصاف سیاسی جماعت ہے اور رہے گی،سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ 8/5 کی اکثریت سے ہے، فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے وہ فیصلہ سنائیں گے، جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ انتخابی نشان کے چھینے سے کسی سیاسی جماعت کو انتخابات لڑنے سے نہیں روکا جاسکتا ،تحریک انصاف سیاسی جماعت ہے اور رہے گی،الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، پی ٹی آئی کو عورتوں اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ملیں گی،دیگر جماعتوں کو ملنے والی مخصوص نشستیں واپس لے لی گئیں ہیں جن 39 امیدواروں نے پی ٹی آئی سے وابستگی دکھائی وہ پی ٹی آئی کے ہی ہیں ،تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، وہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو لسٹ جمع کرائے، سنی اتحاد کونسل کو نشستیں نہیں دی جائیں گی۔ نشستیں صرف پاکستان تحریک انصاف کو ملیں گی،پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کی فہرست دے،الیکشن کمیشن نے 80 ارکان کی فہرست پیش کی ہے ،80 میں سے 39 ارکان کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا ،باقی 41 ارکان آئندہ 15 دنوں میں اپنی پوزیشن واضح کریں کہ وہ کس جماعت کا حصہ ہیں

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بطور پی ٹی آئی قرار دے دیا اور سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کر دیں،عدالت نے کہا کہ دیگر 41 امیدوار بھی 14 دن میں سرٹیفکیٹ دے سکتے ہیں کہ وہ سنی اتحادکونسل کے امیدوار تھے، سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی، پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اترتی ہے

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس شاہد وحید، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمدعلی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت نے اکثریتی فیصلہ سنایا۔

فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل نے درخواست کی مسترد
چیف جسٹس پاکستان قاضی فاٸز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان نے درخواستوں کی مخالفت کی جبکہ جسٹس یحیٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ تحریر کیا،جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھا جس میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل نے قانون کے مطابق پروسیس مکمل نہیں کیا درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کی.چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے میں لکھا کہ الیکشن کا یکم مارچ کا آرڈر برقرار رہے گا،

الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، الیکشن کمیشن دوبارہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ارکان کو نکال کر فیصلہ دیا، اس بنیاد پر پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن نے غلط طور پر پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ڈیکلیئر کیا، پی ٹی آئی نے آزاد قرار دیے جانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج ہی نہیں کیا،الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، الیکشن کمیشن دوبارہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے، اب پی ٹی آئی کے منتخب ارکان یا خود کو آزاد یا پی ٹی آئی ڈیکلیئر کریں، پی ٹی آئی ارکان پر کسی قسم کا دباو نہیں ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فاٸز عیسی اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کا اضافہ نہیں کر سکتی، آئین کی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرنا آئین پاکستان کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس کےفیصلے کی غلط تشریح کی،

جسٹس امین الدین خان نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل مسترد کرتے ہیں، جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ میں بھی جسٹس امین الدین خان کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کرتا ہوں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کرتا ہوں ،چیف جسٹس اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی ایک نشست بھی نا جیت سکی، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ بھی جمع نہیں کرائی، آئین نے متناسب نمائندگی کا تصور دیا ہے،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے فیصلہ سنایا، اس موقع پر سپریم کورٹ کےباہر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے،سپریم کورٹ کے باہر قیدیوں والی گاڑیاں موجود تھی، پولیس الرٹ تھی،سپریم کورٹ کی جانب جانے والے راستے بند اور عام شہریوں کا داخلہ بند کردیا گیا تھا، تحریک انصاف کے رہنما بابر اعوان،سردار لطیف کھوسہ اور کنول شوذب بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے،سلمان اکرم راجہ،بیرسٹر گوہر علی خان, شبیر قریشی اور ثناءاللہ مستی خیل بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے،سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل کمرہِ عدالت وکلاء، رہنماؤں اور صحافیوں کی بڑی تعداد سے بھر گیاتھا،

سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد دو دن فل کورٹ مشاورتی اجلاس بلایا تھا جس کے بعد گزشتہ روز پہلے کہا گیا تھا کہ تین رکنی بینچ فیصلہ سنائے گا پھر کاز لسٹ جاری کی گئی کہ فل کورٹ فیصلہ سنائے گی،سنی اتحاد کونسل کے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کرنیوالے فل کوٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ،جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں.

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے مخصوص نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں سنیں،31 مئی کو سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں پر دستیاب ججز کا فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا، جس نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں پر اپیلوں کی 9 سماعتیں کیں،سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مجموعی طور پر 77 متنازع نشستیں ہیں، یہ 77 مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیے تھیں مگر دیگر جماعتوں کو ملیں، 77 نشستوں میں قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلیوں کی 55 نشستیں شامل ہیں،الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد 77 متنازع مخصوص نشستوں کو معطل کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ،مخصوص نشستیں، سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

کچھ ججز دانا ہوں گے، میں اتنا دانا نہیں، پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں، چیف جسٹس

نشان نہ ملنے پر کسی امیدوار کا کیسے کسی پارٹی سے تعلق ٹوٹ سکتا؟ چیف جسٹس

انتخابات بارے کیا کیا شکایات تھیں الیکشن کمیشن مکمل ریکارڈ دے، جسٹس اطہر من اللہ

سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیل پر سماعت 24 جون تک ملتوی

سپریم کورٹ، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کیخلاف کیس کی سماعت ملتوی

مخصوص نشستیں، فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں نظر نہیں آ رہا، مبشر لقمان

واضح رہے کہ 6 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے سے متعلق کیس میں پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا تھا،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کو اپنا مینڈیٹ واپس لینے کیلئے یہ اعتراف کرلینا چاہئیے کہ الیکشن والے دن بہت بڑی فاش غلطی ہوئی

بلیک میلنگ کی ملکہ حریم شاہ کا لندن میں نیا”دھندہ”فحاشی کا اڈہ،نازیبا ویڈیو

حریم شاہ کے خلاف کھرا سچ کی تحقیقات میں کس کا نام بار بار سامنے آیا؟ مبشر لقمان کو فیاض الحسن چوہان نے اپروچ کر کے کیا کہا؟

حریم شاہ..اب میرا ٹائم شروع،کروں گا سب سازشیوں کو بے نقاب، مبشر لقمان نے کیا دبنگ اعلان

میں آپکی بیویوں کے کرتوت بتاؤں گی، حریم شاہ کی دو سیاستدانوں کو وارننگ

جمعہ کا دن،کئی عدالتی فیصلے،ملکی سیاست ہی نہیں اقتدار کے ایوانوں کو بھی ہلاکر رکھ دیا
پاکستان کی ملکی سیاست میں جمعہ کا دن انتہائی اہم رہا، جمعہ کے دن کئی عدالتی فیصلے ہوئے جنہوں نے ملکی سیاست ہی نہیں اقتدار کے ایوانوں کو بھی ہلایا،20 جولائی 2007 جمعہ کے روز سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی ہوئی تھی،31 جولائی 2009 بروز جمعہ ،ایمرجنسی کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا،28 جولائی 2017 بروز جمعہ،پانامہ لیکس کیس میں‌سابق وزیراعظم نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا،15 دسمبر 2017 بروز جمعہ، جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا گیا تھا،13 اپریل 2018 بروز جمعہ، نواز شریف اور جہانگیر ترین کو آرٹیکل 62 ون کیس میں نااہل قرار دیا گیا تھا،6 جولائی 2018،ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں نواز شریف، مریم نواز،کیپٹن ر صفدر کو سزا سنائی گئی تھی،

شریف برادران اور مسلم لیگ ن کے لئے جمعہ کا دن بھاری رہتا ہے، پانامہ کیس کے فیصلے سے تاحیات نااہلی کے فیصلے تک سب جمعہ کو سنائے گئے، پانچ مئی 2017 بروزجمعہ پاناما جے آئی ٹی بنی۔ اٹھائیس جولائی بروز جمعہ نواز شریف نااہل ہوئے۔ پندرہ ستمبر بروز جمعہ نظر ثانی کی درخواست خارج ہوئی۔ تیرہ اپریل کو نواز شریف تاحیات نا اہل ہوئے .ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ جمعہ چھ جولائی دوہزار اٹھارہ کو سنایا گیا جب عدالت نے نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اورداماد کیپٹن قید کی سزا کا حکم سنایا۔ا س سے پہلے اصغر خان کیس میں نوازشریف اور دیگر کیخلاف تحقیقات کا حکم بھی انیس اکتوبر 2012 بروز جمعے کو ہی جاری ہوا تھا.

تحریک انصاف کا سیٹیں دیگر جماعتوں میں بانٹنے پر الیکشن کمیشن کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کا مطالبہ
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کا ردعمل سامنے آیا ہے، ترجمان تحریک انصاف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے بعد ہم سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر کے تحریک انصاف کی سیٹیں دیگر جماعتوں میں بانٹنے پر کٹھ پتلی الیکشن کمیشن کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کرے۔

Leave a reply