اسلام ، ہندو مت، سکھ ازم اور عیسائیت سورج گرہن سے متعلق کیا نظریات رکھتے ہیں، باغی ٹی وی کی خصوصی رپورٹ
اسلام ، ہندو مت، سکھ ازم اور عیسائیت سورج گرہن سے متعلق کیا نظریات رکھتے ہیں، باغی ٹی وی کی خصوصی رپورٹ
باغی ٹی وی رپورٹ کے مطابق ، سورج گرہن کے بارے میں مخلف مذہب کے لوگوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے باغی ٹی وی سے بات کی ہے . اس سلسلے میں بشپ فرانسس شاہ نے کہا کہ ہماری بائبل مقدس میں لکھا ہے کہ ساری مخلوقات اور نظام حیات خداوند نے بنایا ہے. اسی طرح ستاروں اور نظام شمسی کے متعلق بعض چیزیں ایسی ہیں جسے ہم مذہب یا ثقافت کی وجہ سے اپنے لوگوں کو بتاتے ہیں ایسے ہی بعض چیزیں سائنس کی روشنی میں ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں. توہم سائنس کی روشنی میں اپنے ماننے والوں کو رہنمائی کرتے ہیں. انہوں نے کہا کہ ہمارے ہم لوگوںکو بتاتے ہیں کہ سورج گرہن کے وقت باہر نہ نکلیں اس سے نطر اور جسم پر نقصان دہ شعاعیں پڑھنے سے نقصان کا اندیشہ ہے. اسی طرحجو خواتین امید سے ہوتی ہیں . ان ہم بھی اپنی روایات اور کلچر میں چلتی باتوںکے تحت بتاتے ہیں کہ وہ باہر نہ نکلیں اس سے بچے اور ماںدونوں کو نقصان ہو سکتا ہے .فرانسس بشب کا کہنا تھا یہ ہم بھی انے کلچر میں پھیلی باتوں کی بنا پر لوگوں کو کہتے ہیں کیونکہ یہ لاکھوں لوگوں کا تجربہ ہے . ہم اس دوران دعا کرتے ہیں
اسی طرح سکھ رہنما سکھپال سنگھ نے کہا کہ ہماری گرنت میں سورج گرہن بارے کچھ نہیں ہے کہ اس سے بچاجائے یااحتیاط کی جائے بلکہ ہم بھی اپنے معاشرے میں جاری ہدایات کو مد نظر رکھ کر اپنے پیروکاروں کو احتیاط کا کہتے ہیں.اس دوران کوئی خاضعبادت نہیں ہے صرف دو وقت عبادت جو کرتے ہیں وہی کرتے ہیں.
اسی طرح سکھ رہنما پریم جند نے کہا کہ ہم اپنی ان عورتوں کو جو حاملہ ہوتی ہیں ہدایت کرتے ہیںکہ وہ باہر نہ نکلیں اور اسی طرح لوہے کی چیز استعمال نہ کریں . مردوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ سورج کومت دیکھیں.
مسلم سکالر حافظ ابتسام الہی ظہیر نے اس بارے میںکہا کہہ اسلام اجرام فلکی کے بارے ہندو مذہب اور دیگر مذاہب سے مختلف رائے رکھتا ہے انہوں نے کہا اسلام اس بارے میںکسی توہمات پر یقین نہیںرکھتا اور نہ کسی امور عامہ کی انجام دہی سے روکتا ہے . یہ ساری باتیں ہمارے اندر ہندوؤں سے آئی ہیں. اسلام میں سورج گرہن سے کوئی موت و حیات پر اثر ندازی ہونے والی کوئی بات نہیں ہے . اس سلسلے میں نماز ادا کرنی چاہیے ، استغفار اور دعا زیادہ سے زیادہ کرنی چاہیے.