وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف حکومت کے تین سال مکمل ہو چکے ہیں. پاکستان میں حسب معمول اور حسب روایت حکومت اپنے کارناموں کی لمبی چوڑی فہرست عوام کے سامنے رکھ رہی ہے جبکہ دوسری طرف ہمیشہ کی طرح حزب اختلاف حکومتی کارکردگی کی فہرست کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے حکومت کے کسی بھی دعوے اور کارکردگی کو ماننے سے انکاری ہے.
ایک طرف تین سال کی تکمیل پر حکمراں جماعت نے اپنی گزشتہ تین سالہ کارکردگی عوام کے سامنے رکھی ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف سب برا ہے کی رٹ لگائے ہوئے ہے. حقیقی تبدیلی یا کارکردگی کے حوالے سے عوام سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا.
حزب اختلاف کے الزامات اور حزب اقتدار کے دعوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے عام پاکستانیوں کی نظر میں تبدیلی سرکار کے تین سالہ دور کا جائزہ لیتے ہیں. قرضوں میں ڈوبا ہوا اور آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہتے ہوئے آپ ناقابل یقین معاشی اور اقتصادی ترقی کی امید نہیں کر سکتے. عمران خان صاحب انتخابی مہم کے دوران جن دعوؤں اور وعدوں کا بار بار ذکر کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ مر جائیں گے مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، مگر مجبوراً انہیں یوٹرن لیتے ہوئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا. صاحب اقتدار ہونے کے بعد وزیراعظم قومی خزانے اور قومی معیشت کی حالت دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے.
پاکستان پہلے سے ہی اندرونی اور بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا تھا اور اب آئی ایم ایف کی سخت اور عوام دشمن شرائط ماننا پڑیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا. آئی ایم ایف کی شرائط میں سے نئے محصولات لاگو کرنا، پہلے سے موجود محصولات میں اضافہ کرنا اور بالخصوص بجلی کے نرخوں میں بتدریج اور مسلسل اضافہ کرنے جیسی مشکل اور سخت شرائط بھی تھیں، جنہیں ماننا پڑا. جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا.حکومتی دعوے کے مطابق جب انہوں نے حکومت سنبھالی تو 9 ارب ڈالر کے غیر ملکی ریزرو تھے. 19 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا جسے ہماری حکومت نے 10 سال کی کم ترین سطح پر لے آئی. کورونا کی وجہ سے اور کچھ عمران خان کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں نے عمران خان پر اعتماد کرتے ہوئے ریکارڈ زرمبادلہ پاکستان بھیجا.
خیبر پختونخوا میں اپنے دور حکومت میں تحریک انصاف نے انصاف صحت کارڈ متعارف کروایا جس سے عام اور غریب عوام بہت مستفید ہوئی، عام انتخابات 2018 کے بعد وفاق اور پنجاب میں بھی حکومت سازی کے بعد تحریک انصاف نے صحت کارڈ کا دائرہ کار پنجاب بھر میں پھیلا دیا. میرے خیال میں عوام کے لئے سب بڑا تحفہ یا تبدیلی یہی صحت کارڈ ہے.
1967 کے بعد پاکستان میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنایا گیا تھا جس کا ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے. لاکھوں اور کروڑوں ایکڑ زمین بنجر ہو گئی ہے اور مہنگے تیل سے مہنگی بجلی بھی بنانے پر مجبور ہیں، عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی بڑے ڈیم کی تعمیر کا کام شروع کیا جن میں دیامیر بھاشا ڈیم، داسو ہائیڈرو پاور، مہمند ڈیم، ہری پور پاور، کرم تنگی ڈیم اور سندھ بیراج قابل ذکر منصوبے ہیں.
بے گھر اور لاوارث لوگوں کے لئے پناہ گاہیں بنائیں گئیں جن میں رہائش اور کھانے کا مناسب اہتمام کیا گیا ہے. میں ذاتی طور پر ان پناہ گاہوں کے حق میں نہیں. میرا خیال ہے کہ 100 بندوں کو پناہ گزین کرنے سے بہتر ہے کہ 10 بندوں کو روزگار پر لگایا جائے اور یہ 10 بندے 10 خاندانوں کے لئے کفیل ثابت ہو سکتے ہیں. اسی طرح غریب اور تنخواہ دار طبقے کے لئے سستے گھروں کو بھی متعارف کروایا گیا. کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت نوجوان نسل کو خود کفالت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لئے قرض سیکم بھی متعارف کروائی گئی. گزشتہ مالی سال 21-2020 میں ریکارڈ 4732 ارب کے محصولات اکٹھے کیے گئے اور آئندہ مالی سال 22-2021 کا ہدف پہلے سے بڑھا کر محصولات کا حجم 5800 ارب کر دیا گیا ہے. زیادہ محصولات اکٹھا کرنا اور آئندہ ہدف میں مزید اضافہ کرنا، اسکو معیشت کے لئے بہتر سمجھا جائے یا عوام پر محصولات کا مزید وزن اور دباؤ سمجھا جائے؟
بہت اچھے کاموں میں سے ایک یہ بھی کارنامہ تبدیلی سرکار کے سر جاتا ہے کہ موجودہ حکومت نے سرکاری اور سرکاری اداروں کی زمینوں کو تجاوزات اور قبضوں سے واہ گزار کروایا. اعداد وشمار کے مطابق ایک لاکھ ایکڑ جس کی مالیت 50 ارب روپے بنتی ہے کو واگزار کروایا گیا. محکمہ تعلیم نے بھی اچھی کارکردگی دکھاتے ہوئے خود کو دور جدید کے تقاضوں سے مزین کیا. ڈیجیٹل اور آن لائن سہولیات متعارف کروائیں. بہت سارے اسکولوں کو پرائمری سے مڈل اور مڈل سے سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری تک ترقی دی. احتساب اور انسداد رشوت کی مد میں اربوں روپے وصول اور ضبط کئے گئے. حکومتی اعداد وشمار کے مطابق نیب نے 535.783 ارب روپے وصول کئے جبکہ پنجاب انسداد کرپشن نے 225 ارب روپے وصول کئے. موجودہ حکومت نے وسیع پیمانے پر ملک بھر بلین ٹری کے تحت پاکستان کو سرسبز بناتے ہوئے اربوں درخت لگائے.
یکساں نظام تعلیم کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں. یقیناً یہ کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے. کسی حد تک اردو کو عزت دینے میں عمران خان ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں. سابقہ حکومت کے مقابلے میں موجودہ حکومت نے ریکارڈ سڑکیں اور شاہراہیں تعمیر کیں، سابقہ حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں 645 کلومیٹرز کی ہائی ویز/موٹر ویز تعمیر کیں جبکہ موجودہ حکومت نے اپنے پہلے تین سال میں 1753 کلومیٹرز کی شاہراہیں مکمل کیں اور 6118 کلومیٹرز زیر تکمیل ہیں. تاریخ میں پہلی بار موجودہ حکومت نے سممدرپار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی بات کی اور پہلی بار الیکٹرانک مشین کے ذریعے ووٹنگ کی بات کی. فی کس آمدن میں اضافہ ہوا اور قوت خرید میں 36.6 فیصد اضافہ ہوا. لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں 14.4 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا. ترسیلات زر میں ریکارڈ 29.4 ارب تک اضافہ ہوا.
یقیناً یہ بھی عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کا اسلام آباد وزیراعظم ہاؤس کے علاوہ پاکستان میں کوئی کیمپ آفس نہیں. حکومت وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں کمی اور بین الاقوامی دوروں میں سادگی کے ذریعے اربوں روپے کی قومی بچت کے دعوے بھی کرتی ہے.
مہنگائی میں اضافہ ہوا، گھی 150 سے 335 فی کلو، چینی 55 روپے سے 110 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہیں. بجلی کے نرخ بھی تاریخ کے بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں. ادویات اور طبی سہولیات مہنگی ہوئی ہیں. پولیس اصلاحات کا وعدہ کیا تھا جو کہ ابھی تک پورا نہیں کیا گیا. عمران خان نے حکومت میں آتے ہی سرائیکی صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا جو کہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا. بہرکیف اگر مہنگائی کو نظرانداز کرتے ہوئے باقی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ حکومت کی کارکردگی نسبتاً تسلی بخش ہے.
@mian_ihsaan