"طبقاتی نظام میں فرق” تحریر: حافظ اسامہ ابوبکر

0
66

بد قسمتی سے ہمارا طبقاتی نظام معاشرے کا بہت اہم مسئلہ بن چکا ہے اس مسئلے کے پسِ آئینہ جو عوامل کارفرما ہیں اُن سے ہر باشعور اِنسان آگاہ ہے مگر ایسی آگہی اور ادراک کا کیا کرنا جس میں ان مسائل کا حل ہی نہ ہو نہ ان کے تدارک کے لئے کوئی کارگر حکمت عملی تیار کی جا سکے اور تفریق کو کم کرنے کے لئے ہم سب کو انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ایسے حالات میں
ہر شخص اپنے وسائل سے بڑھ کر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کوشاں رہتا ہے تا کہ اس کے بچے نہ صرف اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر سکیں بلکہ معاشرے میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کے قابل بھی ہوں اور زندگی کو بہترین طریقے سے گزار سکیں
لیکن دن رات کی تگ و دو اسے غریبی اور مفلسی کی زنجیروں میں جکڑ کر زہنی بیمار کر دیتے ہیں
ایسے میں امیر طبقے کے لئے بہترین سہولیات ان کے بچوں کے لئے اچھے تعلیمی ادارے

پروٹوکول، غریب رکشہ ڈرائیور کے لئے چالان کی ادائیگی لازم ہے جب کہ کسی بڑی گاڑی میں بیٹھ کر قانون کی دھجیاں بکھیرتے امیر زادے کے لئے نہیں کیوں کہ وہ صاحب حیثیت کی اولاد ہے اس کے ماموں چاچو کی فون کال ہمارے نظام سے ماورا ہے دن رات اسی طبقاتی تفریق کی الجھن مڈل کلاس بچوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے
سکولز کالجز میں امیروں کے بچوں کے لئے الگ رولز دیکھ کر مڈل کلاس بچے رات کو اپنے والدین سے بہت سے سوال کرتے ہیں ایسے میں ان کے والدین انکو کیا بتائیں کہ ان کے سوال غلط نہیں مگر جواب بھی نہیں ہے

پھر بھی غریب والدین اپنے بچوں کو سنہرے مستقبل کے حوالے سے خوب صورت خواب دیکھا کر آنے والے کل کے لئے مضبوط کرتے ہیں
اور پھر وہی بچے پڑھ لکھ کر جب کسی اچھی نوکری پر مامور ہوتے ہیں تو ان میں سے بیشتر اپنا ماضی بھول کر خود کو وی آئی پی کیٹیگری میں رکھ کر باقی سب کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں تو فرق کہاں اور کیسے کم ہو سکتا جب کہ انفرادی طور پر کوئی عمل پیرا نہیں ہوتا
اس طبقاتی تفریق میں کمی کے لئے حکومتی پالیسیز پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تا کہ تعلیم علاج اور روزگار کے لئے یکساں مواقع فراہم کیے جا سکیں ورنہ یہ فرق کبھی نہ ختم ہونے والی ایسی لکیر ہے جسے کوئی کبھی بھی نہیں مٹا سکتا۔

Leave a reply