Tag: انتخابات

  • الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے،چیف جسٹس

    الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے،چیف جسٹس

    پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے،آج عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔

    باغی ٹی وی: سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت شروع ہو گئی۔ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے لیے 5 رکنی نیا بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر بھی نئے بینچ کا حصہ ہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات کے لیے حالات سازگار نہیں تو اس کی وجوہات بتائی جائیں۔جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کی تاریخ آئےتو ہی فیصلہ ہوگا کہ اس وقت انتخابات ہوسکتےہیں یا نہیں، پورا مہینہ ضائع کردیا کہ گورنر نے مشاورت کا کہا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ امن وامان کا معاملہ گورنرکا نہیں الیکشن کمیشن کا ہے، کیا امن وامان کا معاملہ انتخابات کی آئینی راہ میں آسکتا ہے؟-جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یہ درست نہیں کہ گورنر کا اقدام صدر کا اقدام ہوتا ہے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ اگر گورنر اسمبلیاں ختم نہیں کرتا تو پھر کیا صورتحال ہوگی، اس پر دلائل دوں گا،آرٹیکل 224 اے کے مطابق اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد صدر یا گورنر قائم مقام حکومت بنائیں گے-

    صدراسلام آباد ہائیکورٹ بار نےکہا کہ آرٹیکل105/3میں تاریخ دینے کی بات کی گئی ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا حکومت تا ریخ دینے پر ایڈوائس نہیں کرسکتی؟ ،وکیل عابد زبیری نےکہا کہ ایسی کوئی قد غن نہیں لیکن حکومت نےایسی ایڈوائس نہیں کی، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پھر آج اس پر ایڈوائس کروالیں-

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ 90 دن کا وقت اسمبلی تحلیل ہونے کیساتھ شروع ہو جاتا ہے،جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟-صدراسلام آباد ہائیکورٹ بار نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کر سکتا ہے؟وکیل عابد زبیری نےکہا کہ الیکشن کی تاریخ دینےکا اختیار گورنر کا ہے وزیر اعلیٰ کا نہیں،گورنر وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے-جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نگران وزیر اعلیٰ اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس کرے تو کیا گورنر اس کا بھی پابند ہے؟،وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نگران حکومت صرف محدود اختیارات کے تحت کام کر سکتی ہے-چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کیا کہ آپ 105 آرٹیکل میں ترمیم کے بعد کی صورتحال بتا رہے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے مکالمے میں کہا کہ یہ معاملہ شاید صدر کا ہے وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ایسی صورتحال میں جب گورنر کردار ادا نہ کریں تو صدر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے-

    صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بارعابد زبیری نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں خاص طور پر جب عام انتخابات کی بات ہو تو پھر 90دن میں تاریخ دینا ضروری ہے، سیف اللہ کیس میں 12 ججز نے انتخاب کے عمل کو لازمی قرار دیا-جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا،انہوں نے استفسار کیا کہ کیا موجودہ یا سابقہ حکومت انتخاب کے اعلان کا کہے گی؟-چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا،صدر اسلام آباد ہائیکورٹ نے دلائل میں کہا کہ آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے 4 طریقے بتائے گئے ہیں-جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ نگران حکومت تو 7 روز بعد بنتی ہے،آئین کی مختلف شقوں کی ہم آہنگی ضروری ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے ریما رکس دیئے کہ پنجاب کے کیس میں وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا گورنر نے نہیں،عابد زبیری نے کہا کہ آئین آرٹیکل 112 کے مطابق عدم اعتماد ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹے میں حکومت ختم ہوسکتی ہے-

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے؟ جس پر وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ پنجاب میں 22 جنوری کو نگران حکومت آئی تھی،میں عدالت کو بتانا چاہتا ہوں صدر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے-چیف جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کہ اگرصدر تاریخ دے سکتے ہیں تو پھر تاریخ دینے میں تاخیر کیوں ہوئی؟ ،عابد زبیری نے جواب میں کہا کہ صدر کے وکیل موجود ہیں وہ جواب دے سکتے ہیں-چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر صدر الیکشن کی تاریخ مشاورت سے دے سکتے ہیں توکیا گورنر بھی ایسا کرسکتے ہیں؟ ،مشاورت شاید الیکشن کمیشن کے ساتھ ہوگی-جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر گورنر الیکشن کرانے پر مشاورت کرتے ہیں توپھروہ وسائل سے متعلق بھی پوچھ سکتے ہیں ؟ وکیل عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن یا پھرگورنر انتخابات کی تاریخ ہر صورت میں دے سکتا ہے-جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آئین واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر گورنر تاریخ دے گا، گورنر کا تاریخ دینے کا اختیار دیگر معمول کے عوامل سے مختلف ہے -جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا نگران حکومت پر پابندی ہے کہ گورنر کو تاریخ تجویز کرنے کا نہیں کہہ سکتی؟کیا گورنر کو اب بھی سمری نہیں بھجوائی جا سکتی ؟ -صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے کہا کہ آئین کی منشاء کے مطابق 90 دن میں انتخابات ہونا ہے ، نگران کابینہ نے آج تک ایڈوائس نہیں دی تو اب کیا دے گی-

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نگران کابینہ کی ایڈوائس کے اختیار پر اٹارنی جنرل کو بھی سنیں گے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا تو 52 دن کا وقت اپنے ذہن میں ضرور رکھے گا، وکیل عابد زبیری نےدلائل میں کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت صدر الیکشن کمیشن سے مشاورت کر کے تاریخ دی سکتا ہے، الیکشن ایکٹ آئین کے آرٹیکل 222 کی تحت بنایا گیا ہے-چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ دینے میں تاخیر کیوں کی ؟شاید صورتحال واضح نہ ہونے پر تاخیر ہوئی ،گورنر الیکشن کی تاریخ کے لیے کس سے مشاورت کریں گے؟-جس پر وکیل نے بتایا کہ مشاورت الیکشن کمیشن سے ہی ہوسکتی ہے-جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر نے الیکشن کمیشن کو پہلی چٹھی لکھی کس آرٹیکل کے تحت بھیجی ؟ ہمیں علم ہے کہ صدر جو بھی عمل کریں گے وہ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے ساتھ کریں گے،صدر اپنے اختیارات کن قوانین کے تحت استعمال کرتے ہیں ، معاونت کریں-صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بارعابد زبیری نے کہا کہ آئین کے مطابق صدر نے کمیشن کو پہلی چٹھی لکھی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 57 کے مطابق انتخابات کی تاریخ دینا آئینی ذمہ داری ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر نے الیکشن کمیشن کو پہلی چٹھی کس آرٹیکل کے تحت بھیجی ؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی-عابد زبیری نے بتایاکہ تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 تین میں ہے،نوے روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے-جسٹس جمال مندوخیل نے بتایا کہ حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں،چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں حکومت آئینی ذمہ داری پوری نہیں کررہی؟اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں-عابد زبیری نے بتایا کہ دباؤ میں اگر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر مملکت تاریخ دیں گے ،میرا موقف ہے کہ انتخاب کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے-جسٹس منصور علی شاہ ریمارکس دیئے کہ مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا،عدالت نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن انتخابات سے معذوری ظاہر کرے کیا پھر بھی گورنر تاریخ دینے کا پابند ہے؟،صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ گورنر ہر صورت تاریخ دینے کا پابند ہے-جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کے پاس تاریح نہ دینےکا کوئی اختیار نہیں،گورنر الیکشن کمیشن کے انتظامات مدنظر رکھ کر تاریخ دے گا،صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن عابد زبیری نے کہا کہ گورنر ہر صورت تاریخ دینے کا پابند ہے- جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا،جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ صدر کے اختیارات براہ راست آئین نے نہیں بتائے،آئین میں اختیارات نہیں توپھر قانون کے تحت اقدام ہوگا،قانون بھی تو آئین کے تحت ہی ہوگا-جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے،صدر مملکت کس قانون کے تحت چھٹیاں لکھ رہے ہیں؟وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت نے مشاورت کیلئے خط لکھے ہیں-جسٹس منصور علی شاہ نے عابد زبیری سے مکالمے میں کہا کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں،اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر مان لیا قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کا پابند ہے،جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کریں گے صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں-

    وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ نگران حکومت صرف محدود اختیارات کے تحت کام کر سکتی ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ اگرصدر تاریخ دے سکتے ہیں تو پھر تاریخ دینے میں تاخیر کیوں ہوئی؟ وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ آئین کی منشاء کے مطابق 90 دن میں انتخابات ہونا ہے ،الیکشن ایکٹ آئین کے آرٹیکل 222 کی تحت بنایا گیا ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن آزاد ادارہ ہے جس کی ذ مہ داری انتخابات کرانا ہے،گورنر پنجاب کا موقف ہے الیکشن کمیشن خود تاریخ دے،گورنر نے انٹرا کورٹ اپیل میں کہا کہ ان سے مشاورت کی ضرورت نہیں الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ وہ ازخود تاریخ کیسے دے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سمجھ نہیں آتا ہائیکورٹ میں 14 دن کا وقت کیوں مانگا گیا؟بطور اٹارنی جنرل آپ کیس شروع ہوتے ہی مکمل تیار تھے ایسے کونسے نکات تھے جس کی تیاری کے لیے وکلاء کو 14 دن درکار تھے؟ہائیکورٹ میں تو مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر چلنا چاہیے تھا،

    جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صدر نے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 ون کا استعمال کیا ہے،اگر صدر کا اختیار نہیں تو سیکشن 57 ون غیر موثر ہے،اگر سیکشن 57 ون غیر موثر ہے تو قانون سے نکال دیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے حساب سے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہے تو کسی سے مشاورت کی ضرورت نہیں،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین اور قانون کی منشا کو سمجھیں ، الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہو تو صدر اور گورنر کا کردار کہاں جائیگا ؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے،آپ کے مطابق الیکشن کمیشن کا کردار حتمی ہے،

    واضح رہے کہ رہے کہ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگر کیس میں 16فروری کو ازخودنوٹس کے لیے معاملہ چیف جسٹس کوبھیجا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔سپریم کورٹ نے از خود نوٹس میں تین سوالات اٹھائے ہیں، پہلا سوال اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ دوسرا سوال انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار کب اور کیسے استعمال کرنا ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی ذمہ داری کیا ہے؟

    عدالت نے ازخود نوٹس سی سی پی او غلام ڈوگر ٹرانسفرکیس میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرنقوی کے نوٹ پرلیا ہے۔پہلے روزکی سماعت کے اہم ریمارکس میں عدالت نے اسمبلی کی تحلیل پر سوال اٹھا یا ،سپریم کورٹ میں سماعت کے آغاز پر عدالت نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے، پنجاب اورکے پی اسمبلیاں 14 اور17 جنوری کو تحلیل ہوئیں، آرٹیکل 224/2 کے تحت انتخابات اسمبلی کی تحلیل سے90 دنوں میں ہونے ہوتے ہیں، آرٹیکل 224 ایک ٹائم فریم دیتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، چاہتے ہیں انتخابات آئین کے مطابق ہوں عدالت نے 3 معاملات کو سننا ہے، صدرپاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 دنوں میں انتخابات ہوں گے، سیکشن 57 کے تحت صدر نے انتخابات کا اعلان کیا ہے، دیکھنا ہے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انتحابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے، ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ آپ سب کو سنیں گے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے سماعت طویل نہیں کریں گے، تیاری کریں کیس کی سماعت سوموار سے ہوگی۔

    دورانِ سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، یہ ازخود نوٹس نہیں بنتا، ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکر کی درخواستیں ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے نوٹ پرلیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنرکو بھی بلایا گیا جوکہ فریق نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ سوال دونوں اسمبلیوں کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں لیکن سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، ہم صرف آئین کی تشریح اور آئین کی عملداری کے لیے بیٹھے ہیں۔

    عدالت نے کہا کہ ‏ہم آج نوٹس جاری کریں گے، ‏ہم اس معاملے کو طوالت نہیں دینا چاہتے اور نہ کوئی ابہام چھوڑنا چاہتے ہیں، ‏ہم 2 بجے بیٹھے ہیں اور یہ ہمارے لیے غیرمعمولی ہے۔

    سماعت میں اٹارنی جنرل نے وقت دینے کے لیے استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت اگلے ہفتے کریں گے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا بھی ازخود نوٹس لیا جائے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس ازخود نوٹس کیس پر اپنی آبزرویشن دینا چاہتا ہوں، یہ ازخودنوٹس کیس نہیں بنتا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے سوموٹو پر کچھ تحفظات ہیں، ان کے تحفظات کو نوٹ کرلیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‏آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے اور ‏وقت جلدی سے گزر رہا ہے،ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا، پنجاب اورکے پی کی اسمبلیوں کو تحلیل کیے جانے کے بعد 6 ہفتے گزرگئے، آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کا انعقاد اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 دن میں ہونا چاہیے، بینچ کی 16 فروری کی سفارش پر سوموٹو نوٹس لیے جانے کی سفارش ہوئی۔عدالت نے کہا کہ الیکشن کے انعقاد کے معاملے پر صدر مملکت،گورنرپنجاب اورکے پی کو بھی سنا جائے گا۔جسٹس منصور نے سوال اٹھایا کہ کیا اسمبلیاں کسی کی ڈکٹیشن پر ختم ہوسکتی ہیں؟نمائندے 5 سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں تو کسی شخص کی ہدایت پر اسمبلی تحلیل کیسے ہوسکتی ہے۔بعد ازاں عدالت نے صدر مملکت اور گورنرکے پرنسپل سیکرٹری کو ان کے نظریے کی نمائندگی کے لیے نوٹس جاری کردیے جب کہ عدالت نے وائس چیئرمین پاکستان بار، چیئرمین سپریم کورٹ بار اور پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کونوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

    دوسرے روز کی سماعت:

    سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل روسٹرم پرآ کر کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی کاپی نہیں ملی، تمام فریقین کو نوٹس نہیں مل سکےاس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی سماعت کا مقصد تمام متعلقہ حکام کو ازخودنوٹس کے متعلق اطلاع دینا تھا، فاروق ایچ نائیک اور تمام ایڈووکیٹ جنرلز یہاں ہیں۔

    دورانِ سماعت پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر اعتراض اٹھادیا۔فاروق نائیک نے کہا کہ ججز سے کوئی ذاتی خلفشار نہیں، جو ہدایات ملیں وہ سامنے رکھ رہا ہوں، ہدایات ہیں کہ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی بینچ سے الگ ہوجائیں۔فاروق ایچ نائیک کے اعتراض پر چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے معاملے پر پیر کو آپ کو سنیں گے،فاروق ایچ نائیک نے پی ڈی ایم جماعتوں کا مشترکہ تحریری بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس اعجازالاحسن پہلے ہی غلام محمود ڈوگرکیس میں اس معاملے کو سن چکے، استدعا ہے دونوں جج صاحبان خود کو ازخود نوٹس سے الگ کرلیں۔پی ڈی ایم کے مشترکہ تحریری نوٹ میں کہا گیا ہےکہ فیئر ٹرائل کے حق کے تحت جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہرکو بینچ سے الگ ہوجانا چاہیے، دونوں ججز کے کہنے پر ازخود نوٹس لیا گیا اس لیے مذکورہ ججز بینچ سے الگ ہوجائیں، دونوں ججز (ن) لیگ اور جے یو آئی کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔فاروق ایچ نائیک نے غلام محمود ڈوگر کیس میں دونوں ججز کا فیصلہ بھی پڑھ کر سنایا جب کہ جسٹس جمال کا گزشتہ روز کا نوٹ بھی پڑھا۔پی پی کے وکیل نے کہا کہ دونوں ججز نے ازخود نوٹس کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا، جسٹس مندوخیل کے نوٹ کے بعد جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہر خودکو بینچ سے الگ کردیں، ڈوگر کے سروس میٹر میں ایسا فیصلہ آنا تشویشناک ہے۔دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ مسٹر نائیک آپ کو نہیں لگتا کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ فل کورٹ کو سننا چاہیے؟اس پر فاروق ایچ نائیک نے انتخابات میں تاخیر کے ازخود نوٹس پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کی اور کہا کہ انتخابات کا معاملہ عوامی ہے،اس پر فل کورٹ ہی ہونا چاہیے۔فاروق نائیک کے موقف پر چیف جسٹس نے کہا کہ 16 فروری کو فیصلہ آیا اور22 فروری کو ازخود نوٹس لیا گیا، ازخود نوٹس لینا چیف جسٹس کا دائرہ اختیارہے، آرٹیکل 184/3 کے ساتھ اسپیکرزکی درخواستیں بھی آج سماعت کے لیے مقرر ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اسپیکرزکی درخواست میں اٹھائےگئے قانونی سوالات بھی دیکھ رہی ہے، آج ہمارے دروازے پر آئین پاکستان نے دستک دی ہے اس لیے ازخود نوٹس لیا ہےجسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دییےکہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے، اپنی جماعتوں سے کہیں کہ یہ معاملہ عدالت کیوں سنے؟فاروق نائیک نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشنز نوٹ کرلی ہیں، اپنی جماعت سے اس معاملے پر ہدایت لوں گا۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیرتک ملتوی کردی۔

    تیسرے روز کی سماعت:

    پیر27 فروری کو پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹنے کے بعدعدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ کیس کی-

    سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ،جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کیس سننے سے معذرت کرنے کے بعد پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے کیس کی سماعت کی- چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدربھی الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 13 اپریل کو انتخابات لازمی کرانے کے 90 دن ختم ہوں گے۔

    اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ صدرکی جانب سے دی گئی تاریخ پر الیکشن ممکن نہیں، کسی صورت بھی 25 اپریل سے پہلے انتخابات نہیں ہو سکتے، 2008 میں بھی انتخابات کی تاریخ آگے گئی تھی، اگر آج بھی الیکشن کا اعلان کریں گے تو 90 دن کی حد پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وہ تو قومی سانحہ تھا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انتخابات میں90 دن سے زائد تاخیر کا جواز دے، الیکشن کی تاریخ آئے گی توہی فیصلہ ہوگا کہ اس وقت انتخابات ہوسکتے ہیں یا نہیں، پورا مہینہ اس بات پر ضائع کردیا کہ گورنر نے مشاورت کا کہا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگرملک کے پاس انتخابات کرانے کے پیسے نہ ہوں توکیا ہوگا؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تعجب ہے ملک بھرمیں کرکٹ میچز کرانے کے پیسے ہیں لیکن انتخابات کیلئے نہیں،کیسے ہوسکتا ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات نہ ہوں کہ پیسے نہیں ہیں؟

    صوبائی اسپیکرز کے وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ کوئی آئینی عہدے دار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا، پنجاب میں 90 دن کا وقت 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے، عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے آئینی اختیارکے تحت خود تاریخ مقرر کی،الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ انتخابات کی تاریخ وہ نہیں دے سکتے، اصل معاملہ انتخابات کی تاریخ کا ہے جو دینے کیلئے کوئی تیار نہیں، الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں انتخابات کی تیاری کا بتا چکا ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تیاری تو تب ہوگی جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوگا، تاریخ کی بات ہو رہی ہے، ابھی تو رشتہ ہونا ہے، کیا گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے؟کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے؟ میری رائے میں گورنرکی صوابدید یہ ہےکہ فیصلہ کرے اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کی یہ صوابدید نہیں ہے، گورنر اگر سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی از خود تحلیل ہوجاتی ہے، گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی 48 گھنٹے کا وقت جاری رہتا ہے، الیکشن کمیشن کو اسمبلی کی تحلیل سے 90 دن میں انتخابات کرانے ہی ہیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو آئین کی کون سی شق انتخابات نہ کرانے کا اختیار دیتی ہے؟کیا الیکشن کمیشن کا انتخاباتی پروگرام 90 دن سے اوپر ہوسکتا ہے؟ اگر گورنر تاریخ نہ دے تو کیا الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کراسکتا ہے؟

    جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر کے پی نے اسمبلی تحلیل کی، ان کو انتخابات کی تاریخ بھی دینا تھی، جب گورنرنے تاریخ نہیں دی تو صدرکے پاس ڈیفالٹ پاور موجود ہے، آئین خود کہتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا گورنرکی ذمہ داری ہے، سال 1976 میں آئین خاموش تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے، اسمبلی نے ترمیم کرکے صدر اور گورنر کو تاریخ دینے کا اختیار دیا، بعض حالات میں الیکشن کی تاریخ دینا گورنر اور بعض میں صدر کی ذمہ داری ہے انتخابات کی تاریخ دینا آئینی ذمہ داری ہے، پنجاب کی حد تک صدر نے شاید تاریخ درست دی ہو۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار دیا ہے، قانون کے مطابق صدر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرنا ہوتی ہے، یہ اہم معاملہ ہے کہ دیکھا جائے کہ صدرالیکشن کمیشن سے کیا مشاورت کرتے ہیں،گورنر بھی کس بنیاد اور مشاورت پر تاریخ مقرر کرسکتا ہے؟

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہر وقت انتخابات کیلئے تیار رہنا چاہیے، کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہوسکتی ہے،گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا، ایک مہینہ گزرگیا ہے تاحال کوئی اعلان نہیں کیا جاسکا۔

    الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کوکاغذات نامزدگی سمیت تمام مراحل کیلئے 52 دن درکار ہیں، الیکشن کمیشن نے اسی بنیاد پر ہی گورنر کو تاریخیں تجویزکی تھیں چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی نہ کسی نکتے پر پہنچ رہے ہیں، جہاں آئین خاموش ہے وہاں قوانین موجود ہیں، منگل کو کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

    تیسرے روز کی سماعت کے دوران اسپیکر پنجاب و کے پی اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے دلائل مکمل کرلیے فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وہ مختصر دلائل دیں گے جس کے بعد عدالت نے مزید سماعت منگل 9 بجے تک ملتوی کردی۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ چار ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا ہے، عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہےگا، آئین کی تشریح کے لیے عدالت سماعت جاری رکھے گی، آئین کیا کہتا ہے اس کا دارو مدار تشریح پر ہےکل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کرکے ختم کرنےکی کوشش کریں گے، جب تک حکمنامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے،سٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکمنامے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا تھا، مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔

    چیف جسٹس نے حکم دیا کہ وکیل علی ظفر دلائل کا آغاز کریں، آگاہ کریں عدالت یہ کیس سنے یا نہیں؟ آگاہ کیا جائے عدالت یہ مقدمہ سن سکتی ہے یا نہیں؟کل ہر صورت مقدمےکو مکمل کرنا ہے۔

    جسٹس محمد علی مظہر کے سوال پر علی ظفر نےکہا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ گورنرکے اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت پر ازخود اسمبلی تحلیل ہوجانےمیں فرق ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنا کس کا کام ہے؟علی ظفر نےکہا کہ انتخابات کی تاریخ کا کون ذمہ دار ہے اسی معاملے پر ازخود نوٹس لیا گیا ہے۔

    جسٹس محمد علی مظہرکا کہنا تھا کہ آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انتخابات میں90 دن کی تاخیرکو جسٹیفائی کرے، کیا کوئی انتخابات میں تاخیرکرسکتا ہے؟

    وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کوئی تاخیر نہیں کرسکتا، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیےکہ گورنرپنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا، اس پر وکیل علی ظفر نےکہا کہ انتخابات کی تاریخ پر پنگ پانگ کھیلا جا رہا ہے،گورنریا الیکشن کمیشن کو عدالت انتخابات کی تاریخ مقررکرنےکا حکم دے سکتی ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں فریقین کے کہنے پر مقدمہ مؤخر ہوا ہے؟ وکیل اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اس لیے ہائی کورٹ سے مؤخرہوا۔کیل علی ظفر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں جاری انٹراکورٹ اپیل میں کوئی حکم امتناع نہیں دیا گیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے انتخابات کی تاریخ کا حکم دیا تھا، کیا کوئی توہین عدالت کی درخواست دائر ہوئی؟ وکیل علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر ہوچکی ہے۔ وکیل اظہر صدیق نےکہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے توہین عدالت کیس میں مبہم جواب دیا گیا، لاہور میں انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت 16 فروری کو ہوئی، اب 21 فروری کو ہوگی۔

    چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ نے اتنے لمبے التوا کی وجوہات دیں؟ ٹھوس وجوہات کے بغیر اہم معاملے میں اتنا لمبا التوا نہیں دیا جاسکتا۔

    وکیل اظہر صدیق نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ میں جواب جمع کرانے کا وقت مانگا جس پر التوا دیا گیا۔

    وکیل علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا، 14 فروری کو لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت دائر کی گئی، صدر مملکت نے معاملے پر 2 خطوط لکھے، 8 فروری کو پہلے خط میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کے اعلان کرنےکا کہا گیا تھا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسارکیا کہ کیا صدر مملکت کے پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب دیا؟ اس پر وکیل علی ظفر نےکہا کہ میری معلومات کے مطابق پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب نہیں دیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئےکہ صدر مملکت کا خط ہائی کورٹ کے حکم کے متضاد ہے، ہائی کورٹ نےگورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینےکا کہا تھا، صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینےکا کہا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں، اگر مشاورت نہیں ہوئی تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا۔

    وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا موقف ہےکہ انتخابات کی تاریخ وہ نہیں دے سکتا، اصل معاملہ انتخابات کی تاریخ کا ہے جو دینے پر کوئی تیار نہیں، پہلے آپ، نہیں پہلے آپ کرکے تاخیر کی جارہی ہے، صدر نے تاریخ مقرر کرنےکے خط میں تمام حقائق کو واضح کیا۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا صدر سےکسی نے رجوع کیا تھا کہ تاریخ دیں یا انہوں نے ازخود ایسا کیا؟ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ بنیادی حقوق کا معاملہ تھا اس لیے صدر کو مداخلت کرنا پڑی، کسی نہ کسی نے تو تاریخ کا اعلان کرنا ہی ہے، اگرعدالت سمجھتی ہےکہ الیکشن کمیشن تاریخ دےگا تو اسے حکم جاری کرے گی، ایسا نہیں ہوسکتا کہ جمہوریت میں خلا چھوڑ دیا جائے، باقی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انتخابات کسی اور ادارے نے کرانے ہیں تو وہ بھی عدالت کو بتادیں۔

    جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کے پی میں بھی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے وہاں کیا پوزیشن ہے؟ اس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ کے پی میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی ہے، گورنر کے پی نے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا کہا ہے،گورنر کے پی نے اپنے خط میں سکیورٹی کو بنیاد بنایا ہے، انتخابات کی تاریخ تو گورنر کے پی نے بھی نہیں دی۔

    وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ میں 3 آئینی درخواستیں زیر التوا ہیں چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 21 دن کا نوٹس کیوں دیا فریقین کو؟ قانونی نکتہ طےکرنا ہے، یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا گورنر کہہ سکتا ہے کہ دہشت گردی ہو رہی ہے مشاورت کی جائے؟ میری نظر میں گورنر کے پی کو ایسا خط لکھنےکا اختیار نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کیس اب صرف اسی سوال پر چل رہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہےجسٹس منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ تاریخ کے لیے مشاورت آئین میں شامل نہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کمیشن اگر خود تاریخ دے دے تو کیا یہ توہین عدالت ہوگی؟ وکیل علی ظفر نےکہا کہ یہ سب تاخیری حربے ہیں، الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آئینی عمل ہے، کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس میں الیکشن 10 سال تاخیرکا شکار ہوجائے، دوسرا فریق بتادے الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے، جسے یہ کہتے ہیں اسے تاریخ کا اعلان کرنے دیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ اگر انتخابات کے لیے حالات سازگار نہیں تو اس کی وجوہات بتائی جائیں جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کی تاریخ آئےتو ہی فیصلہ ہوگا کہ اس وقت انتخابات ہوسکتےہیں یا نہیں، پورا مہینہ ضائع کردیا کہ گورنر نے مشاورت کا کہا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ امن وامان کا معاملہ گورنرکا نہیں الیکشن کمیشن کا ہے، کیا امن وامان کا معاملہ انتخابات کی آئینی راہ میں آسکتا ہے؟چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ سال 2013 اور 2018 میں اسمبلیوں نے مدت مکمل کی تھی۔

    ڈی جی لاء الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اسمبلی مدت مکمل کرے تو صدر مملکت انتخابات کی تاریخ مقرر کرتے ہیںجسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئےکہ کے پی میں وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پرعملدرآمد ہوا لیکن پنجاب میں نہیں۔

    وکیل علی ظفرکا کہنا تھا کہ اسمبلیاں نہ ہوں تو آئین میں گورننس کا کوئی اور طریقہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے لیے 90 دن کی حد مقررکی گئی ہے، 90 دن میں الیکشن کا ہونا ضروری ہے، صرف اعلان نہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کرانا ہے۔

    وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ذمہ انتخابات کے لیے انتظامات کرنا اور الیکشن کرانا ہے، آئین کے مطابق الیکشن کمیشن نے قومی،صوبائی اوربلدیاتی انتخابات کرانے ہیں، آرٹیکل 218، 219 اور 222 الیکشن کمیشن کو انتخابات کی ذمہ داری دیتے ہیں، تمام ایگزیکٹو ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں، الیکشن کمیشن بے بسی ظاہر کرے تو عدالت کو ایکشن لینا چاہیے۔

    گزشتہ روز پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ نے 23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا تحریری حکم جاری کردیا تحریری حکم نامے میں کہا گیا انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔

    23 فروری کے حکم نامے میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ ہیں، جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ ہیں۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ بینچ کی ازسرنو تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے، چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پرطےکیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ ازسرنو چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔

  • سپریم کورٹ انتخابات ازخود نوٹس کی سماعت کرنے والا بنچ ٹوٹ گیا

    سپریم کورٹ انتخابات ازخود نوٹس کی سماعت کرنے والا بنچ ٹوٹ گیا

    پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس،سپریم کورٹ کا نیا بینچ تشکیل دے دیا گیا،
    چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نئے بینچ میں شامل ہیں،جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر بھی سپریم کورٹ کے نئے بینچ کا حصہ ہیں ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی سپریم کورٹ کےنئے بینچ میں شامل نہیں اختلافی نوٹ لکھنے والے 4 میں سے 2 ججز بھی سپریم کورٹ کے نئے بینچ میں شامل نہیں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی سپریم کورٹ کےنئے بینچ میں شامل نہیں

    اسلام آباد: پنجاب اور کے پی میں انتخابات کیلئے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا-

    باغی ٹی وی: پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ نے 23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا تحریری حکم جاری کردیا۔سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت کے لیے پہلے ساڑھے11، پھر 12 بجےکا وقت دیا گیا تھا۔تاہم اب انتخابات کیلئے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا .جسٹس اعجا الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے انتخابات ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے سے معذرت کر لی۔

    چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ چاروں ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے،انتخابات سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کل ساڑھے 9 بجے کریں گے ،جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ گورنر کون مقرر کرتا ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کے اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد ازخود تحلیل ہو جانے میں فرق ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سماعت کل ساڑھے 9 بجےکر کے مکمل کریں گے ،وکیل علی ظفر نے کہا کہ گورنر پنجاب نے نگران وزیراعلیٰ کیلئے دونوں فریقین سے نام مانگے،ناموں پر اتفاق رائے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن نے وزیراعلی ٰکا انتخاب کیا،الیکشن کمیشن نے گورنر کو خط لکھ کر پولنگ کی تاریخ دینے کا کہا،گورنر نے جواب دیا انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ کیسے دیں؟ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں،کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا، 90دن کی آئینی مدت کا وقت 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ لاہورہائیکورٹ میں جو سماعت ہوئی کب تک ملتوی ہوئی؟ وکیل نے کہا کہ لاہورہائیکورٹ میں آ ج سماعت مقرر تھی وہ ملتوی کردی گئی ہے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک غیر یقینی کی صورتحال ہے،علی ظفر ایڈوکیٹ نے عدالت میں کہا کہ الیکشن کمیشن آئین پر عمل نہیں کررہا ،گورنر کو بھی سمجھ نہیں آرہی ہے، وکیل شیخ رشید نے کہا کہ معاملے میں توہین عدالت کی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کیس میں کیا احکامات ہائیکورٹس نے جاری کیے ہیں؟وکیل شیخ رشید نے کہا کہ ان درخواستوں پر مارچ میں سماعت ہوگی،وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے،انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،ہائیکورٹ نے قرار دیا انتخابی عمل الیکشن سے پہلے شروع اور بعد میں ختم ہوتا ہےعدالتی حکم پر الیکشن کمیشن اور گورنر کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوئی، صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقرر کر دی،

    قبل ازیں سپریم کورٹ ،پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس سپریم کورٹ نے 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا نئے بینچ تشکیل دینے کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا، چار ججز نے نئے بینچ کی تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس عمر عطابندیال کو بھجوایا سپریم کورٹ کے چار وں ججز کے نوٹس آرڈر شیٹ میں شامل ہیں،جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس جمال خان مندوخیل نے نوٹ لکھا،جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کو نوٹ بھی شامل ہیں،

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے نوٹ لکھا کہ الیکشن کا معاملہ پشاوراور لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، ازخود کیس میں سپریم کورٹ کی رائے لاہور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پراثرانداز ہوسکتی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ
    بینچ کے 4 ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے،عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی،آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے، کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کرکے ختم کرنے کی کوشش کریں گے،جب تک حکمنامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے،جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکمنامہ سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا،مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو،علی ظفر آگاہ کریں عدالت یہ کیس سنے یا نہیں؟ کل ہر صورت مقدمہ کو مکمل کرنا ہے،

    زرائع کے مطابق گیارہ بجے سے غیر رسمی فل کورٹ میٹنگ جاری ہے جو اس وقت تک جاری ہے جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ججز صاحبان کے درمیان تلخ اور شدید جملوں کا بھی تبادلہ ہوا-

    باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات تو دور کی بات ہے اطلاعات کے مطابق ضمنی انتخابات بھی نہیں ہوں گے ۔

    واضح رہے کہ کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل ہیں۔

    حکمران اتحاد 9 رکنی بینچ میں سے جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کو الگ کر کے فل کورٹ بنانے کی اپیل دائر کرچکا ہے۔

    پچھلی سماعت میں چیف جسٹس نے کہا تھا پیر کو ججز کے معاملے پر معترضین کو سنیں گے،چیف جسٹس نے پہلی سماعت میں ریمارکس دیئے تھے کہ الیکشن 90 دن میں ہونے ہیں ، آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے۔

    عدالت نے آج اٹارنی جنرل ، چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرل اور پی ڈی ایم سمیت سیاسی جماعتوں، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کو نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگر کیس میں 16فروری کو ازخودنوٹس کے لیے معاملہ چیف جسٹس کوبھیجا تھا سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر از خود نوٹس لیا تھا۔

  • خیبر پختو نخوا انتخابات: عدالت نے گورنر کو جواب جمع کرانے کیلئے آخری مہلت دے دی

    خیبر پختو نخوا انتخابات: عدالت نے گورنر کو جواب جمع کرانے کیلئے آخری مہلت دے دی

    پشاور ہائیکورٹ نے صوبائی انتخابات کے سلسلے میں گورنر پختونخوا کو جواب جمع کرانے کے لیے آخری مہلت دے دی۔

    باغی ٹی وی: 90 روز میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کے لیے دائردرخواستوں پر سماعت پشاور ہائیکورٹ کےجسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس ارشد علی نے کی پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز،شوکت یوسفزئی،شاہ فرمان اور عاطف خان عدالت میں پیش ہوئے۔

    وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت کی دعوت

    جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیئے کہ 2 دن کا وقت دیتے ہیں جس نے جواب جمع کرنا ہے کرلیں، جو نہیں کرنا چاہتے نہ کریں ہم کیس کو سنیں گے۔

    تحریک انصاف کے وکیل معظم بٹ نے کہا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن اور گورنر سے جواب طلب کیا تھا،جس پر عدالت نے کہا کہ ہمارے پاس الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت کاجواب آیا ہے۔

    ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ گورنر سے فوری رابطہ کیا،اس وقت مانسہرہ میں تھا گورنر گزشتہ رات پہنچے 2 دن میں جواب جمع کرا دیں گے۔

    جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ ہم آئندہ سماعت پر اس کیس کو سنیں گے، ہم درخواستوں پر جلد فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل شمائل بٹ نے دلائل میں کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل گورنر کی نمائندگی نہیں کرسکتا-

    آمدن سے زائد اثاثہ جات :عثمان بزدار کی عبوری ضمانت منظور

    جس پر عدالت نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے صرف جواب سے متعلق آگاہ کیا ہےایڈووکیٹ جنرل گورنر کی نمائندگی کرسکتا ہے یا نہیں،اس کو ہم دیکھ لیں گے۔

    عدالت نے کہا کہ جواب کے لیے مزید 2 دن دیتے ہیں گورنر دو دن میں جواب جمع کرائیں پیر کے روز اس کیس کو سنیں گے بعد ازاں عدالت نے سماعت 20 فروری تک ملتوی کردی۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر پشاور ہائیکورٹ نے خیبر پختو نخوا میں الیکشن سے متعلق درخواست پر صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن سے جواب طلب کیادرخواست گزار کے وکیل نے بتایا تھا کہ آئین کے مطابق انتخابات کیلئے تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری ہے اور اسمبلی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات کرانا لازمی ہے۔

    جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے ریمارکس دئیے تھے کہ قانون کے مطابق 90 روز میں الیکشن کرانا لازمی ہے،عدالت نے استفسار کیا کہ اگر گورنر اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہو تو پھر کیا ہو گا؟-

    معروف صحافی رانا مبشر نے نجی خبررساں ادارے کو خیرباد کہہ دیا

  • اسپیکر پنجاب اسمبلی نےپنجاب میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق گورنرپنجاب کے خط کا جواب دے دیا

    اسپیکر پنجاب اسمبلی نےپنجاب میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق گورنرپنجاب کے خط کا جواب دے دیا

    لاہور: اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق گورنرپنجاب کے خط کا جواب دے دیا۔

    باغی ٹی وی: اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے خط میں گورنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے آئین کی تشریح اپنی مرضی کے مطابق کی،یہ کہنا بلاجواز ہے کہ اسمبلی از خود تحلیل ہوئی اورگورنر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتا،میں نے وہ خط دیکھا جو گورنر نے الیکشن کمیشن کو لکھا۔

    نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کی تعیناتی کے خلاف درخواست میں وفاقی حکومت، گورنر پنجاب،…

    اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے گورنر پنجاب کے نام خط میں کہا کہ حیران ہوں گورنر نے نامعلوم اسٹیک ہولڈز سے مشاورت کیلئے کہا،گورنر پنجاب نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی،التجا ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔

    اسپیکر پنجاب اسمبلی نے خط میں کہا کہ اسمبلی ٹوٹنےکے بعد الیکشن کی تاریخ کا اعلان ضروری ہے جو آپ نے ابھی تک نہیں کیا، ایسا نہ کرکے آپ آئین سے انحراف کررہے ہیں، آپ جلد سے جلد الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں تاکہ آئینی بحران پیدا نہ ہو۔

    خط میں مزید کہا گیا ہےکہ انتخابات کی تاریخ نہ دینے کے حوالے سے آپ کے خط سے اتفاق نہیں کرتا، آئینی طورپر اسمبلی کی تحلیل کے بعد الیکشن کی تاریخ کا اعلان ضروری ہے جو آپ نےابھی تک نہیں کیا۔

    اسپیکر کے خط میں کہا گیا ہے کہ آپ ایسا نہ کرکے آئین سے انحراف کررہے ہیں، آئین کی شق 105 سے واضح ہےکہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرناگورنرکی ذمہ داری ہے ، اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد لازم ہے۔

    خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کے الیکشن کی تاریخ دینے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا،الیکشن…

    واضح رہے کہ دو روز قبل گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے الیکشن کمیشن،اسپیکر پنجاب اسمبلی اور پی ٹی آئی کے سابق پارلیمانی لیڈر عثمان بزدار کو خط لکھا تھا،گورنر پنجاب نے خط میں لکھا کہ الیکشن کمیشن کو منصفانہ اور شفاف طریقے سے آگے بڑھنا چاہیے،ملکی اقتصادی اور سکیورٹی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں۔

    الیکشن کمیشن موجودہ صورتحال کے مطابق تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے،میرا آفس انتخابات سے متعلق ذمہ داریاں پوری کرے گا۔

    قبل ازیں پنجاب اور خیبر پختو نخوا میں انتخابات کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے گورنرز کو دوبار خط لکھے۔الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبر پختو نخوا میں انتخابات کی تاریخ کیلئے گورنرز کو خط لکھے۔

    خط میں کہا گیا کہ پنجاب اسمبلی 14 جنوری کو تحلیل ہوئی مگر اب تک الیکشن کی تاریخ نہیں دی گئی،اسی طرح خیبر پختوا نخوا اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی لیکن اس اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ بھی نہیں دی گئی۔

    پی ایس ایل 8: کمنٹری پینل کے نام سامنے آگئے

    خط میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت تحلیل کی صورت میں گورنرز کا الیکشن کی تاریخ دینا ضروری ہے،الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عام انتخابات کی تاریخ کے لئے گورنرز کو دو بار خط لکھ چکا ہے۔

  • چیف الیکشن کمشنر نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کےمعاملے پراہم اجلاس طلب کرلیا

    چیف الیکشن کمشنر نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کےمعاملے پراہم اجلاس طلب کرلیا

    اسلام آباد: چیف الیکشن کمشنر نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات اور ضمنی الیکشن کے معاملے پر اہم اجلاس طلب کرلیا۔

    باغی ٹی وی : تفصیلات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت اہم اجلاس آج ہوگا، عام انتخابات اور ضمنی الیکشن کے اخراجات اور تیاریوں پر بریفنگ دی جائے گی۔

    الیکشن کمیشن نے پنجاب اور کے پی کے میں تقرریاں و تبادلوں پر پابندی لگادی

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی صورتحال کے باعث پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات ایک ہی دن نہ کرانے کی تجویز دی جائے گی، حکام نے پنجاب کے عام انتخابات یکم سے 10 اپریل تک کرانے کی تجویز دی ہے جبکہ کے پی میں 10 سے 15 اپریل تک انتخابات کراوئے جاسکتے ہیں۔

    اسی طرح ضمنی انتخابات مارچ کے پہلے ہفتے میں کروانے کی تجویز زیر غور ہے تاہم عام انتخابات سے متعلق حتمی فیصلہ چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت اجلاس میں ہوگا جبکہ عام اور ضمنی انتخابات میں اخراجات کا تخمینہ بھی لگا لیا گیا ہے تاہم دونوں صوبوں اور ضمنی الیکشن پر تقریبا 15 ارب روپے کے اخراجات آئیں گے۔

    الیکشن کےدوران پنجاب میں 53 ہزار، کےپی 17 ہزار پولنگ اسٹیشن قائم ہوں گےجہاں 7 لاکھ تک پولنگ اسٹاف کی ضرورت ہوگی، دونوں صوبوں کے عام انتخابات میں 5 لاکھ تک پولیس فورس تعینات ہوگی جبکہ عام انتخابات میں حساس اور انتہائی حساس پولنگ اسٹیشن پر فوج اور رینجرز تعینات کی جائے گی۔

    چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت اجلاس کے بعد گورنر کو عام انتخابات سے متعلق خط لکھا جائے گا، جس کے بعد گورنرز الیکشن کمیشن کی مجوزہ تاریخ کا جائزہ لیکر حتمی تاریخ کا اعلان کریں گے۔

    سیف الملوک کھوکھر ن لیگ لاہور کے صدر مقرر

    دوسری جانب الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب بھر میں ٹرانسفرپوسٹنگ پرپابندی عائد کر دی گئی ہے صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب نے نگران سیٹ اپ کے لیے ہدایات جاری کرتے ہوئے چیف سیکریٹری پنجاب، آئی جی اور تمام متعلقہ حکام کو مراسلہ جاری کردیا۔

    مراسلے میں الیکشن کمشنرپنجاب نے ٹرانسفر پوسٹنگ کے علاوہ نئے ترقیاتی منصوبوں پربھی پابندی عائد کی ہےاور سابق وزیراعلیٰ اور سابق وزرا سے پروٹوکول سمیت سرکاری گاڑیاں بھی واپس لینے کے ساتھ ساتھ سرکاری رہائش گاہ، سرکاری ہاسٹلز وگیسٹ ہاؤسز کو بھی خالی کرانےکی ہدایات کی گئی ہے الیکشن کمیشن کی جانب سے نگران سیٹ اپ کو روٹین کا کام جاری رکھنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی جانب سے نامزد کردہ محسن رضا نقوی کو نگران وزیر اعلیٰ پنجاب تعینات کردیا تھا اور بعد ازاں انہوں نے نگران وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھا لیا تھا۔

    پنجاب: نگران کابینہ کی تشکیل کیلئے مشاورت ،منتخب 6 وزرا کا آج حلف اُٹھانے کا امکان

    گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے گورنر ہاؤس میں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی سے عہدے کا حلف لیا، اس سے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے محسن نقوی کے تقرر کا نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا تھا۔

    اس سے قبل نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے اسپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے بنائی گئی دوطرفہ پارلیمانی کمیٹی مقررہ وقت میں کسی نام پر اتفاق رائے میں ناکام رہی تھی جس کے بعد الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کیا۔

    چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں کمیشن سیکریٹریٹ میں الیکشن کمیشن کےارکان کاخصوصی اجلاس ہوا تھا، اجلاس میں الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا کے رکن اکرام اللہ خان، سندھ کے رکن نثار درانی، بلوچستان کے رکن شاہ محمد جتوئی اورپنجاب کے رکن بابر حسن بھروانہ نے بھی شرکت کی تھی۔

    تحریک انصاف کےمزید 43 ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور

  • ڈیرہ اسمٰعیل خان:جرائم پیشہ افراد کےخلاف آپریشن کلین اپ:نامی گرامی مجرم گرفتار

    ڈیرہ اسمٰعیل خان:جرائم پیشہ افراد کےخلاف آپریشن کلین اپ:نامی گرامی مجرم گرفتار

    ڈیرہ اسماعیل خان:ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شعیب خان کے احکامات پرڈی ایس پی کی قیادت میںتھانہ پروآ پولیس کی کاروائی،مشہور نوسرباز گرفتار، سرقہ شدہ رقم و12عددATMکارڈبرآمد۔تفصیلات کے مطابق تھانہ پروآ پولیس نے دھوکہ دہی میں ملوث ملزم کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ملزم محمد عارف ولد سوہنڑا خان قوم کمہار سکنہ نوبل ٹائون نزد عید گاہ کلاں کو گرفتار کرکے 12عدد ATMکارڈ معہ بذریعہ دھوکہ دہی سرقہ شدہ رقم 10000روپے نقد برآمد کرکے حسب ضابطہ مقدمہ درج کرکے ملزم کو بند بحوالات تھانہ کردیا۔تھانہ پروآپولیس نے ملزم کوگرفتارکرکے اس کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے ۔ڈیرہ کے عوامی سماجی حلقوںنے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کامیاب کاروائیوں پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شعیب خان کوزبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیاہے۔

    ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شعیب خان کے منشیات کے خلاف کاروائیوں کے احکامات پرڈی ایس پی پہاڑ پور کی کاروائی،منشیات فروش گرفتار،1کلو سے زائد چرس برآمد۔تفصیلات کے مطابق ایس ایچ او تھانہ پہاڑپور ظفر عباس زیر قیادت ڈی ایس پی پہاڑپور فضل رحیم خان معہ نفری پولیس بدوران پولیو سیکورٹی ڈیوٹی کاروائی کرتے ہوئے منشیات فروش ملزم محمد فاروق ولد غلام قاسم قوم موہانہ سکنہ حافظ آباد سے 1125 گرام چرس برآمد کرکے ملزم کو حسب ضابطہ گرفتارکرکے پابند سلاسل کردیا ۔ڈیرہ کے عوامی سماجی حلقوںنے منشیات کے خلاف کامیاب کاروائیوں پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شعیب خان کوخراج تحسین پیش کیاہے۔

    ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شعیب خان کے ناجائز اسلحہ کے خلاف کاروائیوں کے احکامات پرڈی ایس پی سٹی کی قیادت میں ایس ایچ اوخانزادہ خان نے پولیس نفری کے ہمراہ کاروائی کے دوران2پستول مع ایمونیشن برآمدکرلیے،2ملزمان گرفتار۔ تفصیلات کے مطابق ایس ایچ او تھانہ سٹی خانزادہ خان نے بدوران گشت دوافراد کو مشکوک جان کر تلاشی کی غرض سے روکا ۔ دونوں کی جامع تلاشی کرنے پرملزمان وقاص علی اور ارسلان ساکنان اعوان آباد سے2عدد پستول 30بور مع ایمونیشن برآمد کر کے گرفتار کر لیا گیا۔ڈیرہ کے عوامی سماجی حلقوںنے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شعیب خان کے ناجائز اسلحہ کے خلاف کاروائیوں کے احکامات پرزبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیاہے۔

    کراچی: نیو کراچی گبول ٹاﺅن ندی کے قریب فائرنگ3 بھائی ہلاک۔

    تھانہ ڈیرہ ٹان پولیس کیNCPسمگلنگ کے خلاف بڑی کاروائی،تقریبا98لاکھ روپے کا سامان برآمد،ڈرائیور گرفتار ،مقدمہ درج۔ تفصیلات کے مطابق زیر قیادت ڈی ایس پی صدر حافظ محمد عدنان ایس ایچ او تھانہ ڈیرہ ٹائون مختیاراحمد معہ انچارج کھتی چیک پوسٹ و نفری پولیس سمگلنگ کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے نان کسٹم پیڈ اشیا کی بلوچستان سے اسلام آباد سمگلنگ کی کوشش ناکام بنادی ۔ کھتی چیک پوسٹ پر کوئٹہ سے آنے والے1کنٹینرنمبرTLG-121کو چیکنگ کی غرض سے روکا ۔ معلومات کرنے پر ڈرائیور سیٹ پر بیٹھے شخص نے اپنا نام عبدالقاہر ولد عبداللہ خان قوم اچکزئی سکنہ کوئٹہ بتلایا مزید چیک کرنے پر گاڑی سے نان کسٹم پیڈ سامان جس میں 200 بوری خشک دودھ،بادام29بوری،ٹائر47بنڈل،ٹائر چھوٹے87بنڈل ،رسی477بنڈل برآمد کرلیے جن کی مالیت تقریبا 9800000 لاکھ کے قریب ہے ۔ڈرائیور کوگرفتار کر کے اور حسب ضابطہ مقدمہ درج کرلیا۔ بعد ازاں سامان کسٹم حکام کے حوالے کردیا گیا۔

    کراچی: نیو کراچی گبول ٹاﺅن ندی کے قریب فائرنگ3 بھائی ہلاک۔

     

    انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کے نجی پٹرول پمپ نے سرکاری گاڑیوں کا تیل بند کر دیا۔انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ نے گزشتہ تین ماہ سے بل کی ادائیگی نہیں کی تھی،پٹرول پمپ انتظامیہ ۔تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کے نجی پٹرول پمپ نے سرکاری گاڑیوں کو تیل کی سپلائی بند کر دی ہے۔پٹرول انتظامیہ کے مطابق انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ نے گزشتہ تین ماہ سے بل کی ادائیگی نہیں کی تھی ۔واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ حالیہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ڈیرہ اسماعیل خان ،ٹانک اور جنوبی وزیرستان ہیں ۔ڈیرہ ڈویژن اور اکائونٹ آفس ڈیرہ سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا مگراس موقف کے حوالے سے کوئی جواب نہیں مل سکاہے۔

     

     

    فیفا ورلڈکپ، بے ہودہ لباس پہننے پر سابق مس کروشیا کو اسٹیڈیم سے نکال دیا گیا

    تھانہ سٹی پولیس کی کامیاب کاروائی، موٹر سائیکل چور گرفتار، سرقہ شدہ موٹر سائیکل برآمد۔تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرشعیب خان کے احکامات پر ڈی ایس پی سٹی سرکل اقبال خان بلوچ کی قیادت میںایس ایچ او تھانہ سٹی خانزادہ خان معہ نفری پولیس نے چوروں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے1ماہ قبل چوری ہونے والا موٹر سائیکل کا مقدمہ درج کرتے ہوئے نامعلوم چور کی تلاش شروع کردی ۔کاروائی کے دوران ملزم وحید ولد اسلم سکنہ درازندہ کو سٹی ایس ایچ او نے ٹریس کرکے چوری شدہ موٹر سائیکل ہنڈا کمپنی برآمد کرکے ملزم کوگرفتار کر کے پابند سلاسل کردیا ۔تھانہ سٹی پولیس نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش کاآغازکردیاہے۔

  • پاکستان تحریک انصاف  (نظریاتی) کا آئندہ بلدیاتی وعام انتخابات میں جڑواں شہروں کےتمام حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان

    پاکستان تحریک انصاف (نظریاتی) کا آئندہ بلدیاتی وعام انتخابات میں جڑواں شہروں کےتمام حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان

    راولپنڈی: پاکستان تحریک انصاف (نظریاتی)نے آئندہ بلدیاتی و عام انتخابات میں راولپنڈی اسلام آباد کے تمام حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کر دیا ہے –

    باغی ٹی وی : ان خیالات کا اظہار پی ٹی آئی (این) راولپنڈی کے صدر و سابق امیدوار صوبائی اسمبلی نصراللہ خان نے راولپنڈی پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا اس موقع پرپارٹی چیئرمین اختر اقبال ڈار کی سالگرہ کاکیک بھی کاٹا گیااور انکی صحت کیلئے خصوصی دعا بھی کی گئی-

    جامشورو سےکراچی کوبجلی فراہم کرنےوالے ہائی ٹرانسمیشن لائن کے ٹاور کو اڑانے کی کوشش

    اس موقع پر پی ٹی آئی (این) شعبہ خواتین و دیگر شعبوں کے عہدیدار بھی موجود تھے نصراللہ خان نے کہا کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے عوام سے جھوٹے وعدے کرکے ملک و قوم کو لوٹا اور اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں،عوام کیلئے یوٹیلیٹی بلزوں اور بچوں کی فیسوں کی ادائیگی مشکل ہو چکی ہے، عوام کی اس حالت پر توجہ دینے کے بجائے آج بھی اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے-

    اوکاڑہ : سید صمصام بخاری کی رینالہ خورد آمد، پر پرتپاک استقبال، پھولوں کی پتیاں نچھاور

    انہوں نے کہا کہ اختر اقبال ڈار نے یہ پارٹی عوام کو ریلیف دینے کیلئے بنائی ہے اسی لئے اس میں مزدور کسان محنت کشوں کو شامل کیا گیا ہے-

    انہوں نےکہا کہ پارٹی چیئرمین کی ہدایت پر راولپنڈی اور اسلام آباد میں آئندہ بلدیاتی و قومی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے امیدوار سے درخواستیں ابھی سے وصول کرنا شروع کردی ہیں ہم صرف درخواستیں ہی نہیں بلکہ انکی آمدن و جائیدادوں کی تفصیلات بھی طلب کر رہے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی این کا منشور ہے کہ کرپشن کی سزا صرف اور صرف سزائے موت ہونی چاہے، اس لئے نیک اور اچھی شہرت کے حامل افراد کو ہی ٹکٹ جاری کئے جائیں گے۔

    اوکاڑہ : فون پر لیلہ سے دوستی،کچہ میں اغواء کاروں کو 15 لاکھ تاوان دیکر مجنوں گھر…

  • آزاد کشمیر بلدیاتی انتخابات:نتائج آنے کا سلسلہ جاری:حکمران جماعت کوشکست

    آزاد کشمیر بلدیاتی انتخابات:نتائج آنے کا سلسلہ جاری:حکمران جماعت کوشکست

    مظفرآباد:آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی حکمران جماعت تحریک انصاف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اطلاعات کے مطابق آزاد کشمیر بلدیاتی انتخابات: پی ٹی آئی کو مظفر آباد میں شکست، ن لیگ بازی لے گئی

    وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کی اپنی آبائی یونین کونسل میں بھی پی ٹی آئی کو شکست ہوگئی۔ ان کی یو سی میں پیپلز پارٹی جموں و کشمیر کے امیدوار اویس لیاقت 134 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے، پی ٹی آئی امیدوار نے 111 ووٹ حاصل کیے۔

    یوم سندھ ثقافت:صوبے بھرمیں رنگا رنگ تقریبات،سندھ کی صدیوں پرانی ثقافت کا مظہربن…

    راولا کوٹ میں بھی پی ٹی آئی کو بدترین شکست ہوئی ہے۔ راولا کوٹ میونسپل کارپوریشن کی 22 نشستوں میں سے پی ٹی آئی صرف 3 نشستیں جیت سکی ہے۔یوں مظفرآباد کے بعد آزاد کشمیر کے ایک اور بڑے شہر راولا کوٹ میں بھی میئر اپوزیشن سے ہوگا۔ پونچھ ڈویژن میں 12 امیدوار پہلے ہی بلامقابلہ منتخب ہوچکےہیں۔

    انتخابات کے پہلے مرحلے میں بھی حکمران پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھااس سے پہلے آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بھی حکمران پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    یوم سندھ ثقافت:صوبے بھرمیں رنگا رنگ تقریبات،سندھ کی صدیوں پرانی ثقافت کا مظہربن…

    آزاد کشمیر بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں دارالحکومت مظفر آباد میں پی ٹی آئی کو شکست ہوئی تھی، پی ٹی آئی میونسپل کارپوریشن مظفرآباد کی 36 میں سے 8 نشستیں جیت سکی جبکہ مسلم لیگ ن 12 وارڈز کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی۔

    مظفر آباد کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پیپلز پارٹی کو بھی 7 نشستیں ملی تھیں،7 آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے جبکہ 2 سیٹوں پر مسلم کانفرنس نے کامیابی حاصل کی تھی۔نیلم، جہلم ویلی اور مظفرآباد کے 3 اضلاع کی یونین کونسلز کی 74 میں سے33 نشستوں پر تحریک انصاف کامیاب رہی تھی۔غیر سرکاری نتیجے کے مطابق پہلے مرحلے میں پیپلز پارٹی 23، مسلم لیگ ن 10 سیٹوں پر کامیاب رہی، 5 پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ مسلم کانفرنس 2 نشستیں جیت سکی تھی۔

  • آزادکشمیر: بلدیاتی انتخابات کاپہلا مرحلہ:غیر حتمی نتائج،ن لیگ کو سبقت حاصل

    آزادکشمیر: بلدیاتی انتخابات کاپہلا مرحلہ:غیر حتمی نتائج،ن لیگ کو سبقت حاصل

    آزادکشمیر: بلدیاتی انتخابات کاپہلا مرحلہ:غیر حتمی نتائج،ن لیگ کو سبقت حاصل،اطلاعات کے مطابق آزادکشمیر میں 31 سال بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے مرحلے میں مظفر آباد کے 3 اضلاع میں پولنگ کے بعد گنتی کا عمل جاری ہے۔

    متنازع ٹوئٹس: اعظم سواتی کیخلاف کراچی، کوئٹہ اور جیکب آباد میں مقدمات درج

    مظفرآباد ڈویژن کے تین اضلاع نیلم، مظفرآباد اور جہلم ویلی میں پہلے مرحلے میں ہونے والے الیکشن کے بعد غیرحتمی غیرسرکاری نتائج کا سلسلہ جاری ہے۔غیرحتمی غیرسرکاری نتائج کے مطابق مطابق 36 میں سے 12 نشستوں پر ن لیگ نے میدان مارلیا۔ تحریک انصاف کے 10، پیپلزپارٹی کے7 جبکہ 7 آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوگئے۔

    قومی اسمبلی کا الیکشن 6 ماہ آگے لے جا سکتےہیں: رانا ثناء اللہ

    خیال رہے کہ 614 نشستوں میں سے 19 کونسلرز بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں جبکہ 595 نشستوں پر 31 خواتین سمیت 2 ہزار 750 امیدوار میدان میں ہیں۔مظفرآباد ڈویژن کے تین اضلاع نیلم، مظفرآباد اور جہلم ویلی میں کل 6 لاکھ 97 ہزار 732 ووٹرز ہیں، جن میں سے خواتین ووٹرز کے تعداد 3 لاکھ 21 ہزار 536 ہے۔

    شراب سپلائی کرنیوالے ملزمان کو رہا نہ کرنے پر وزیراعظم آزاد کشمیر آپے سے باہر

    بلدیاتی انتخابات میں تقریباً 2 ہزار 716 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں زیادہ تر تعلق پاکستان تحریک انصاف اورپاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے۔حکام کے مطابق کہ ایک ہزار 323 پولنگ اسٹیشن میں سے 418 حساس اور 257 انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے جہاں بالترتیب 3 اور5 پولیس اہلکار تعینات ہوں گے تاہم دیگر پولنگ اسٹیشن پر2 پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔

  • ملائیشیا:عام انتخابات میں کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی

    ملائیشیا:عام انتخابات میں کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی

    کواللمپور:ملائیشیا کے عام انتخابات میں کوئی بھی جماعت حکومت بنانے کیلئے واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اب مختلف جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کا سوچ رہی ہیں‌

    ملائیشیا کے الیکشن کمیشن کے مطابق انور ابراہیم کے اتحاد پاکاتان ہراپن (پی ایچ) نے 222 رکنی پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ 82 نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ سابق وزیراعظم محی الدین یاسین کی پیریکاتن نیشنل (پی این) 73 نشستوں کے ساتھ پیچھے ہے، موجودہ ملائیشین وزیراعظم اسماعیل صابری یعقوب کی حکمران جماعت باریسن نیشنل (BN) اتحاد کو صرف 30 نشستوں پر ہی کامیابی ملی۔

    زیادہ نشستیں جیتنے والے دونوں امیدواروں انور ابراہیم اور محی الدین نے اتوار کو اپنی اپنی کامیابی کا اعلان کردیا حالانکہ نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں میں سے کسی کے پاس حکومت بنانے کے لیے درکار ووٹ نہیں ہیں، حکومت بنانے کیلئے 112 ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔

    ہفتہ کی رات اپنے حامیوں سے خطاب میں انور ابراہیم نے دعویٰ کیا کہ انہیں حکومت بنانے کے لیے پارلیمنٹ کے اراکین کی کافی حمایت حاصل ہے اور وہ بادشاہ کو لکھے گئے خط میں اپنی حمایت کی تفصیل دیں گے، جبکہ محی الدین نے اپنے حامیوں کو یہ بتایا کہ وہ صباح اور سراواک سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ایک اتحاد بنانے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔

    الیکشن میں ملائیشیا کے سابق وزیراعظم 97 سالہ مہاتیر محمد 53 سال میں پہلی مرتبہ اپنی پارلیمانی سیٹ ہار گئے۔ مہاتیرمحمد نے دو دہائیوں سے زائد عرصے تک ملائیشیا کے وزیر اعظم کے طور پر کام کیا وہ اپنی پارلیمانی نشست برقرار رکھنے میں ناکام رہے، 1969 کے بعد انتخابات میں مہاتیر کی یہ پہلی شکست ہے۔