کچھ دیر قبل سوشل میڈیا پر چند دوستوں کی طرف سے ایک ویڈیو شیئر کی گئی جس میں یوم آزادی کے موقع پر رکشے پر سوار دو عورتیں جا رہی ہوتی ہیں کہ اچانک سے ایک درندہ چلتے رکشے پر سوار ہوتا ہے اور بوسہ لے کر فرار ہو جاتا ہے اس منظر کو دیکھنے والے کئی لوگ تھے اور چند لوگ اس کو فلمانے میں مشغول تھے مگر کسی میں بھی اتنی اخلاقیات موجود نہ تھی یا اتنی ہمدردی نہ تھی جو ان کی اپنی ماں یا بہن کی لیے ہونی چاہیے اس لیے کی نے اس درندے کو پکڑنے کی کوشش تک نہ کی بلکہ اس منظر کو دیکھ کر چند اور منچلوں نے اس حرکت کو دوبارہ سرانجام دینے کی کوشش کی لہذا مجبوری اور بے بسی کی حالت میں ایک عورت نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوتا اتار لیا اور ان بزدلوں کو للکارا جس کی وجہ سے وہ یہ حرکت کرنے سے باز رہے اگر وہ اس طرح ہمت نہ کرتی تو شائد یہاں پر بھی مینار پاکستان پر عائشہ کے ساتھ مردوں کی طرف سے اجتماعی بے حرمتی کی گئی وہی مناظر دیکھنے کو ملتے -اس ویڈیو میں ایک اور بات جو ابھی تک میرے دماغ میں اٹکی ہوئی ہے وہ یہ کہ جو نوجوان موٹر سائیکل پر سوار اس ساری واقعے کو فلمانے میں مصروف تھے اگر وہ چاہتے تو باآسانی اس حیوان کو پکڑ سکتے تھے مگر وہ بے حس اس بات پر پچھتا رہے تھے کہ وہ لڑکا جو بے ہودہ حرکت کر رہا تھا وہ بازی لے گیا ہے اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں اگر یہی عمومی رویہ ہے تو شائد ابھی ہمیں انسان بننے کی منزل تک پہنچنے کے لیے کئی صدیاں لگیں-اس ویڈیو میں ایک اور بات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ پچھلے چند دنوں میں جو واقعات سامنے آئے ہیں ان کو صرف جوتوں کی زبان ہی سمجھائی جا سکتی ہے اگر اس طرح کہ دو چار اور واقعات میں عورتیں بدتہذیبی کرنے والے دو چار آوارہ گردوں کو جوتے مار دیتی ہیں تو شائد اس طرح کے واقعات میں کمی آ جائے ایک اور بات جس کو کہنے کے لیے شدت سے دل کر رہا تھا مگر ڈر رہا تھا کہ کہنے سے شائد عائشہ اور اس طرح کی دیگر لڑکیوں کو انصاف دلوانے کی جو مہم چل رہی ہے وہ متاثر نہ ہو جائے -وہ بات یہ ہے کہ ہاتھوں کی تمام انگلیاں برابر نہیں ہوتی اسی طرح تمام مرد بھی ایک جیسے نہیں ہوتے مینار پاکستان میں ہونے والے واقعے میں جو کہ یقیناً ایک بہت ہی بھیانک منظر تھا اور لوگ اس معصوم کو اچھال رہے تھے اور اپنی وحشت کا مظاہرہ کر رہے تھے مگر اس میں چند ایسے مرد بھی تھے جو اس کی مدد کر رہے تھے جس کا اس نے باقاعدہ ذکر کیا ہے کہ سیکیورٹی گارڈ جو وہاں پر موجود تھے انہوں نے جنگلا ہٹایا تاکہ وہ چند شرپسند عناصر جو نازیبا حرکات کر رہے تھے ان سے محفوظ ہونے کے لیے اندر آ جائے اور ان میں وہ مرد بھی شامل تھے جو اس کے فالورز تھے اور اس کے ساتھ ویڈیو بنانے کے لیے آئے ہوئے تھے اور کچھ اس کے ساتھ ویڈیو بنا چکے تھے مگر کچھ بھی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تھا بلکہ اچانک چند نوجوانوں پر مشتمل ایک گروہ سامنے آیا اور اس نے اس طرح کی حرکات شروع کر دی لہذا تمام مردوں کو اس میں مورد الزام ٹھہرانا ہر گز مناسب نہیں اس کے بعد وکٹم بلیمنگ کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ اس نے پہلے سے موجود منصوبے کے تحت یہ ساری کاروائی سرانجام دی ہے تاکہ شہرت حاصل کی جاسکے جبکہ یہ دلیل بھی جا رہی ہے کہ وہاں پر موجود تمام لوگ بےگناہ تھے تو یہ بات ماننے کو بھی دل تیار نہیں ہے اگر یہ باتیں مان بھی لی جائیں تو کیا رکشے میں سوار خواتین بھی مشہور ہونے کے لیے یہ سب کررہی ہیں خدارا انسان بن جائیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچا جا سکے اور ہماری عورتیں اپنے آپ کو اس ملک میں محفوظ تصور کریں-
تحریر-محسن ریاض
ٹویٹر-mohsenwrites@

تعفن زدہ معاشرہ اور عورتیں تحریر:-محسن ریاض
Shares: