"خود میرے نبی نہ یہ بات بتا دی لا نبی بعدی
سنے لے ہر زمانہ یہ نوائے ہادی لا نبی بعدی”
عقیدہ ختمِ نبوت ہر امتی کو جان سے بھی پیارا ہے. یہ اسلام کا ایسا لازم رکن ہے جسکے بغیر مسلمان کا ایمان کبھی مکمل نہیں ہو سکتا.یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر تمام مسالک اور فرقے متفق ہیں کہ سیدنا محمدﷺ کو آخری نبی نہ ماننے والا یقینی طور پر دائرہ اسلام سے خارج ہے. اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا ہے”محمد ﷺتمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کا سلسلہ ختم کرنے والے ہیں ” اس آیت سے علم ہوا کہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کیلیے بند ہوگیا ہے اور یہ وہ اعزاز ہے جو کسی نبی یا رسول کو عطا نہیں ہوا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”(لا نبی بعدی)” میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے. "قادیانی مرزا کافر کی نبوت پر جتنے دلائل پیش کرتے ہیں وہ سب نہ تو قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی احادیث سے بلکہ یہ سب تو ان کی من گھڑت باتیں ہیں. تحفظِ ختمِ نبوت پر زندگی فدا کر دینا زندگی کا بہترین استعمال ہے. اس کام کی فضیلت اسقدر ہے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ جو شخص اس بات کاخواہش مند ہو کہ وہ سیدنا محمدﷺ کی ذاتی خدمت کرنا چاہے وہ ختمِ نبوت کے تحفظ کا کام کرے.
فتنہِ قادیانیت پہلی بار سیدنا ابو بکر صدیق کہ دورِ خلافت میں اٹھا. 1200 صحابہ اکرام نے جنگِ یمامہ میں اپنی جانیں قربان کر کہ فتنہِ قادیانیت کو مکمل طور پر مٹا ڈالا. آنے والے وقتوں میں اسطرح کے مرتد سر اٹھاتے رہے لیکن ہر دور میں اس فتنہ کی سرکوبی کرنے والا مردِ مجاہد میدان میں موجود رہا. قیامِ پاکستان کے بعد نئی سلطنت کو درپیش مسائل میں ایک فتنہِ قادیانیت سے نمٹنا بھی تھا. اسوقت تک پاکستان کے آئین کے مطابق قادیانی کافر نہیں تھے. وقت کے ساتھ ساتھ یہ فتنہ اپنی جڑیں وسیع کر رہا تھا جسے کاٹنا بہت ضروری ہو گیا تھا.اسی نازک صورتحال میں سپہ سالارِ تحریکِ ختمِ نبوت,فاتح قادیانیت علامہ شاہ احمد نورانی اٹھے. آپ نے زندگی کی آخری سانس تک ختمِ نبوت کے تحفظ کی جدوجہد کی. محراب و منبر سے لے کر سینٹ کے ایوانوں تک ہر میدان میں یہ مردِ مجاہد قادیانیت کی موت بن کر سامنے آیا. آپ نے قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی تحریک کا آغاز کیا. اس میں آپکے رفیقِ کار عبدالستار خان نیازی کی خدمات بھی قابلِ قدر ہیں.اس تحریک کے دوران دی جانے والی قربانیاں آبِ زرسے لکھنے کے لائق ہیں. پاکستان کا پہلا مارشل لاء اسی دوران نافذ ہوا جسے ختمِ نبوت کے محافظوں پر ہی آزمایا گیا. اور 10 ہزار کے قریب نہتے بچے,بزرگ اور نوجوان محظ ختمِ نبوت کی پہریداری کے جرم میں شہید ہوئے.لاہور کی تاریخ کا یہ لہو رنگ دور تھا. سیکرٹری دفاع سکندر مرزا نے یہ فرعونی آرڈر جاری کر رکھا تھا کہ:”مجھے یہ نہ بتایا جائے کہ کوئی ہنگامہ ختم کر دیا گیا ہے، بلکہ مجھے یہ بتایا جائے کہ وہاں کتنی لاشیں گرائی گئی ہیں؟مجاہدین کا عزم اس قدر بلند تھا کہ بے انتہا ظلم و تشدد,گرفتاریاں اور گولیاں بھی اس جذبے کو سرد کرنے میں ناکام تھیں. ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا. اور ہزاروں بے گناہوں کو شاہی قلعہ اور جیلوں میں ٹھونس کر بے رحم پولیس کیرحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا.کرفیو کے باوجود جلوس نکلتے رہے,ڈنڈے گولیاں برستی رہیں.
شہر میں شہدائے ختم نبوت کے پاک جسموں کے ڈھیر لگ گئے تھے جنہیں ٹرکوں میں لاد کر، چھانگا مانگا کے جنگل میں اجتماعی قبر کھود کر ڈالا جاتا اور پھر تیل چھڑک کر آگ لگا دی جاتی تھی، تاکہ شہیدانِ عشقِ رسالت کا نام و نشاں مٹ جائے لیکن وہ بد بخت یہ نہیں جانتے تھے کہ تحفظِ ختم نبوت کے لیے آنے والی موت تو ابدی زندگی ہے.
. اس تحریک کے 3 مطالبات درج ذیل تھے.
1۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔2۔قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے فارغ کیا جائے۔ 3۔قادیانی وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ خان کو بر طرف کیا جائے۔
اگر چہ وقتی طور پر تحفظِ ختمِ نبوت کی تحریک کو ریاستی طاقت کا ناجائز استعمال کرتے دبا دیا گیا لیکن آنے والے وقتوں میں شہداء کا مبارک خون اور قربانیاں رنگ لائیں. اور تمام مطالبات ایک ایک کر کہ پورے ہو گئے.سر ظفر اللہ قادیانی رسوا ہوا.اور اقتدار کو ترستا مرا. قادیانی غیرمسلم قرار پائے.یوں یہ تحریک اپنے مقصد میں کامیاب ہوئ.قادیانی اپنی اس ہار کو بھولے نہیں اور آج بھی وہ دوبارہ یہ خواب دیکھتے ہیں کہ کسی دن وہ اس وطن میں انکو کافر قرار دینے والا قانون ختم کروانے میں کامیب ہو جائیں گے. لیکن سیدنا محمدﷺ کا جب تک آخری جانثار بھی زندہ ہم اس وطن میں یہ ممکن نہیں ہونے دیں گے انشاء اللہ. ہمارا فرض ہے کہ آنے والی نسلوں کو ختم نبوت کی اہمیت, فتنہ قادیانیت اور اسکی سرکوبی کے لیے دی جانے والی لازاول قربانیوں سے آگاہ کریں. بطوایک امتی اللہ تعالیٰ ہم سب کو زندگی کی آخری سانس تک عقیدہِ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت کا وفادار رکھے اور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے. آمین.
"فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد درود
ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام”
@just_S32