مزید دیکھیں

مقبول

رمضان المبارک ، پیپلز بس سروس کے اوقات میں توسیع کا اعلان

محکمہ ٹرانسپورٹ حکومت سندھ کی جانب سے رمضان المبارک...

مصطفیٰ قتل کیس، دو ڈرگ ڈیلر گرفتار

کراچی: مصطفیٰ عامر قتل کیس میں منشیات سے جڑے...

ملک ناقابل تسخیربنایا نواز شریف تیرا شکریہ،تجزیہ :شہزاد قریشی

دو کالم،،،،،،،،،،،،،،تجزیہ ،،،،،،،،،،،،،،،،،تصحیح شدہ امریکہ کی بدلتی پالیسی،یورپ سمیت دنیا...

بھارتی اداکارہ کی خفیہ شادی 4 ماہ بعد ہی طلاق پر ختم

ممبئی: بھارتی ٹیلی ویژن اداکارہ ادیتی شرما کی خفیہ...

روزانہ کولڈ ڈرنک پینے موت کاخطرہ بڑھ جاتا ہے، نئی تحقیق نے ہلچل مچا دی

پیرس:کولڈ ڈرنک پینے والوں کے لیے ایک حوالے سے بری خبر کہ کولڈ ڈرنک پینے والوں کو موت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں لیکن دوسری طرف اچھی خبر اس لیے کہ آخر ماہرین نے کولڈ ڈرنک پینے والوں کو نقصانات سے آگاہ کرکے اس سے بچنے کا موقع فراہم کردیا ہے. اس حوالے سے دس یورپی ممالک میں 451,000 افراد پر بیس سال تک کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ روزانہ کولڈ ڈرنک پینے والوں کی زندگی کم ہوجاتی ہے اور ان کےلیے ناگہانی موت کا خطرہ، کبھی کبھار کولڈ ڈرنک پینے والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔

تفصیلات میڈیکل ریسرچ جرنل ’’جاما انٹرنل میڈیسن‘‘ کی طرف سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کی بات کریں تو روزانہ دو یا دو سے زیادہ بوتل کولڈ ڈرنک پینے والے لوگوں کی اوسط عمر، مہینے میں ایک سے دو بار کولڈ ڈرنک پینے والوں کے مقابلے میں 16 سال تک کم ہوجاتی ہے جبکہ ان میں ناگہانی موت واقع ہونے کا خطرہ بھی غیرمعمولی طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ’’شوگر فری‘‘ یا ’’ڈائٹ‘‘ اور شکر والی کولڈ ڈرنک، دونوں کے اثرات میں بہت زیادہ فرق نہیں دیکھا گیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اس کی وجہ شکر نہیں بلکہ وہ دوسرے اجزاء ہیں جو کولڈ ڈرنک کی تیاری میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں؛ البتہ ابھی اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

میڈیکل ریسرچ جرنل ’’جاما انٹرنل میڈیسن‘‘ کی تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ طویل عرصے تک زیادہ کولڈ ڈرنک پینے والے لوگ کولون کینسر اور پارکنسن کے علاوہ مختلف دماغی امراض کے باعث اپنی زندگی سے ہاتھ دھو سکتے ہیں؛ دل اور شریانوں کی کوئی بیماری ان کی جان لے سکتی ہے؛ جبکہ وہ پیٹ کی کسی جان لیوا بیماری کا شکار بھی بن سکتے ہیں۔ یعنی کسی بھی طبّی وجہ سے ان کی ناگہانی موت کے امکانات، کولڈ ڈرنک نہ پینے والے افراد کے مقابلے میں واقعی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اس تحقیق کی تفصیلات میڈیکل ریسرچ جرنل ’’جاما انٹرنل میڈیسن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔