تکرار لاحاصل تحریر :سفیر اقبال

0
38

تکرار لاحاصل
تحریر :سفیر اقبال
رنگِ سفیر
(ریاست پاکستان کا موجودہ قانون، مجرمان کے لیے پناہ گاہ)

عوام :یار یہ کب تک ہوتا رہے گا اس طرح ہمارے ساتھ؟ کیا ہم ساری زندگی ایسی ہی خبریں سنتے رہیں گے؟

حکومتی نمائندہ : دیکھو یار کوئی گھڑی قبولیت کی بھی ہوتی ہے اللہ سے اچھی امید رکھو ایسے نہیں کہتے.

عوام :تو اس کا مطلب بس اللہ پر ہی امید چھوڑ دیں اور اگلے ہفتے پھر نئی خبر کے لیے تیار ہو جائیں؟

حکومتی نمائندہ :نہیں یار جذباتی مت بنو. تفتیش شروع ہو گئی ہے. دیکھنا جلد گرفتاریاں ہو جائیں گی

عوام :یار گرفتاری کر کے کیا ہونا ہے؟ کیا جرم رک جائے گا؟ کیا مجرم کو سزا نہیں ملے گی؟

حکومتی نمائندہ : یار یہ سزا والی باتیں پرانی ہیں ‏دینا کی تاریخ میں یہ سب ہو چکا ہے، اس طرح کی سزائیں قبائلی معاشروں میں ہوتی ہیں جہاں انسان اور جانور ایک برابر ہیں، مہذب معاشرے مجرموں کو سزا سے پہلے جرم روکنے کی تدبیر کرتے ہیں.

عوام :دو سال تو ہو گئے آپ کی مہذب حکومت کو. کب کرو گے ایسی تدبیر. کب بناو گے ایسا ماحول، اور ایسا قانون؟

حکومتی نمائندہ :دیکھو یار اس وقت خزانہ خالی ہے. قرضے کا بوجھ ہے. مافیا اپوزیشن کے ساتھ ملکر حکومت ناکام کرنے پر تلی ہے. ایف اے ٹی ایف کی الگ پریشانی ہے. ایسی صورت میں اتنا سخت قانون نہیں بن سکتا اتنی جلدی.

عوام :تو پھر حل کیا ہے یار اس کا؟

حکومتی نمائندہ :حل تو اور بھی بہت ہیں. ساری غلطی حکومت کی بھی نہیں. اصل میں عوام بھی کچھ اچھی نہیں. اگر مساجد کے مولوی بچوں کے ساتھ بدفعلی کرنے سے باز آ جائیں، خود احتسابی کر لیں اور. لوگوں کو نصیحت کریں تو آدھے سے زیادہ جرائم ویسے ہی ختم ہو جائیں. زیادہ غلطی مولویوں کی ہے جو لوگوں کو گندے کاموں سے بچنے کی نصیحت نہیں کرتے.

عوام: یار مولوی کیسے مجرم کو نصیحت کر سکتا ہے؟ آج کل مجرم پولیس اور حکومت سے نہیں ڈرتے تو مولوی کی بات کہاں سنیں گے. مجرم تو قانون سے ڈرتا ہے بس اور وہ مولوی نے نہیں عمران خان نے بنانا ہے

حکومتی نمائندہ :یار قانون عمران خان نے نہیں عدالتوں نے بنانا ہے. عمران خان تو خود چاہتا ہے مجرم کو سزا ملے لیکن قانون بنانے والے قانون نہیں بناتے.

عوام :یار عمران خان چاہتا ہے تو اس نے اپنی کرسی کی توہین کرنے والی کو کیوں نہیں سزا دی یا انہیں جو اسے کرسی پر لے گئے تھے ٹک ٹاک وڈیو بنانے کے لیے؟ کیا عمران خان کے کمرے اور اس کی کرسی پر بیٹھنے والی طوائف کا فیصلہ بھی عدالتوں نے کرنا تھا؟

حکومتی نمائندہ :یار کیا فضول بات کرتے ہو. تم نے سنی نہیں یہ خبر کہ وزیر اعظم نے اس واقعہ کا سختی سے نوٹس لیا اور متعلقہ حکام کو ڈانٹ بھی پلائی تھی؟

عوام :یار وہ متعلقہ حکام کون تھے وہ پتا نہیں چل سکا؟

حکومتی نمائندہ :یار پتا چلا ہو گا لیکن ہر بات عوام کو بتانا ضروری تو نہیں. گھر کے مسائل گھر میں حل کیے جاتے ہیں چوکوں چوراہوں میں تو نہیں.

عوام :یار آج تک کسی نے اس بات پر اعتراض کیا کہ حکومتی ایوانوں میں چھپ کر کون کون زنا کرتا ہے. وہ وڈیو پبلک ہوئی تب بات گھر سے باہر نکلی ورنہ کس نے کچھ کہنا تھا.

حکومتی نمائندہ. یار جو کچھ ہوا حکومتی ایوانوں میں ہوا تمہیں کیا تکلیف ہے تمہارے گھر تو کوئی نہیں آیا. وہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے اور اگر وڈیو پبلک ہوئی تو خود حکومت ہی بدنام ہوئی ہے تمہیں تو کسی نے کچھ نہیں کہا.

عوام :لیکن یار محلے میں آگ لگی ہو تو ساتھ والے گھر کو بھی جلا سکتی ہے. آج کسی کی ماں بیٹی کا ریپ ہوا اللہ نہ کرے کل میرے بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے.

حکومتی نمائندہ :یار اپنی حفاظت خود کرنی چاہیے. کسی کا کوئی نقصان ہو جائے تو اس میں حکومت کی کیا غلطی بھلا؟ اگر کسی کے ذاتی کاروبار میں اسے نقصان ہو جائے تو وزیر اعظم کو گالیاں کس لیے بھلا…, ؟

عوام :تو پھر حکومت بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کر کے الیکشن کے وقت ووٹ کیوں مانگتی ہے…. ؟اس وقت کہہ دیا کرے کہ میں عوام کے ساتھ انصاف کی گارنٹی نہیں دیتا کیوں کہ وہ عدلیہ کا کام ہے یا عوام خود اپنی حفاظت کرے. البتہ عوام کے لئے چیزیں سستی کروں گا… کشمیر آزاد کرا دوں گا.

حکومتی نمائندہ :یار تمہیں پتا تو ہے اس وقت یہ سب نہیں ہو سکتا اتنی جلدی. مافیا اپوزیشن کے ساتھ مل کر حکومت کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہی ہے…… خزانہ خالی ہے…. ایف اے ٹی ایف…

Leave a reply