کسی بھی ملک کے طلبہ اپنے ملک کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں ٹھیک ایسے ہی پاکستان کے طلبہ بھی ہمارے ملک کا مستقبل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ طلبہ جب پڑھ لکھ جاتے ہیں تو وہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ اپنے ملک کا روشن مستقبل ہوتے ہیں۔

پر اس کے لیے ضروری یہ ہوتا ہے کہ طلبہ کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے انھیں تمام سہولیات سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے بغیر اچھی تعلیم حاصل کرسکیں۔

آج پاکستان جہاں بہت سے مسائل میں جکڑا ہوا ہے انہیں میں سے ایک مسئلہ طلبہ کو درپیش مشکلات کا بھی ہے۔ اگر پاکستان میں گورنمنٹ سکولوں کو دیکھا جائے تو وہاں اساتذہ تو موجود ہوتے ہیں پر ان کی کارکردگی صفر ہوتی ہے۔ گورنمنٹ سکولوں میں بہت سے اساتذہ بچوں کے ساتھ اکثر زیادتی کر جاتے ہیں۔

انھیں اچھی تعلیم نہیں دیتے۔ اس کے علاؤہ وہاں طلبہ کے لیے مکمل فرنیچر کی سہولت موجود نہیں ہوتی۔ اکثر بچے زمین پہ بیٹھ کر پڑھائی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر پرائیویٹ سکولوں کو دیکھا جائے تو وہاں سہولیات تو ساری ہوتی ہیں پر ان سکولوں کی فیس بہت ہوتی ہے۔

جس کی وجہ سے کم ازکم ایک غریب کا بچہ تو اچھی تعلیم حاصل نہیں کرسکتا پھر اگر فرض کریں وہ داخلہ لے بھی لے تو وہاں کی مہنگی کتابیں اور دیگر ضروریات کے خرچے تو نہیں اٹھا سکتا۔ اس سب کے سبب بہت سے بچے تعلیم کی دنیا کو خیر باد کہہ دیتے ہیں اور جو باقی پیچھے تعلیم حاصل کرنے کے لیے رہ جاتے ہیں ان میں سے بھی آدھی تعداد کہیں نا کہیں ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔

ہمارے ہاں تعلیم کو اب بہت مشکل بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے بچے سکول کا نام سنتے ہی بھاگ جاتے ہیں اور باقی اگر جو تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکولوں کا رخ کرتے ہیں تو بچارے ڈر ڈر کر پڑھتے ہیں۔ پڑھائی کو اپنے اعصاب پر اس قدر سوار کرلیتے ہیں کے ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو بچوں کے لیے آسان بنانے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ ایک غریب کا بچہ بھی آرام اور سکون سے تعلیم حاصل کرسکے۔

@SeharSulehri

Shares: