تعلیم کی ضرورت و اہمیت تحریر: اعجاز حسین

0
163

آج کے اس تیز ترین دور میں تعلیم بہت زیادہ ضرورت و اہمیت کی حامل ہے۔زمانہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
حالانکہ آج کمپیوٹر اور ایٹمی ترقی کا دور ہے۔ساٸنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے ۔مگر سکولوں میں بنیادی عصری علوم ،ٹیکنیکل تعلیم،انجٸینٸرنگ،وکالت ،ڈاکٹری اور مختلف علوم حاصل کرنا جدید دور کا تقاضا ہے۔
جدید علوم تو ضروری ہیں ہی ساتھ ہی دینی علوم کی تعلم بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔اس کیساتھ ساتھ انسان کو اخلاقی تعلیم کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اسی تعلیم کیوجہ سے زندگی میں اللہ کی اطاعت،عبادت ،محبت،خلوص،ایثار،خدمت خلق ،وفاداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔اخلاقی تعلیم کیوجہ سے ہی ایک مثالی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
تعلیم کے حصول کیلیے قابل اساتذہ کا میسرہونا لازم ہے۔جو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد کرتے ہیں۔استاد وہ نہیں جو محض چار کتابیں پڑھا کر مبّرا ہو گیا،بلکہ استاد وہ ہے جو طلبہ کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے۔انہیں شعور اور ادراک سے مالامال کرتا ہے۔علم و آگہی نیز فکر و تدّبر پیدا کرتا ہے۔
اگر موجودہ حالات کو دیکھا جاۓ تو شعبہ تدریس کو بھی آلودہ کر دیا گیا ہے۔
محکمہ تعلیم،سکول انتظامیہ ،معاشرہ بھی بس چار کتابوں تک محدود ہو گیا ہے۔کل تک حصول علم کا مقصد تعمیر انسانی تھا۔آج ڈگری،نمبر اور مارک شیٹ پر ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے تعلیمی اداروں پر مفاد پرست ٹولہ قابض رہا ہے۔
جن کے نزدیک اس عظیم شعبے کی کوٸی اہمیت نہیں رہی۔بدقسمتی اس بات کی ہے کچھ ایسے عناصر بھی تعلیم کے دشمن ہوتے ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کیلیے ہمارے تعلیمی نظام کے درمیان ایسی کشمکش کا آغاز کر رکھا ہے جسکی وجہ سے تعلیمی نظام درہم برہم ہے۔
مگر پھر بھی جسطرح بیرونی دنیا کے لوگ تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی جدید تعلیم سے کبھی دور نہیں رہے۔ بلکہ جدید زمانے کے جتنے بھی علوم ہیں، زیادہ تر کے بانی مسلمان ہی ہیں ۔آج یورپ تک کی جامعات میں مسلمانوں کی تصنیف کردہ کتابیں نصاب میں شامل ہیں۔
جہاں پوری دنیا کرونا کی وبا سے متاثر ہوٸی ہے وہیں تعلیمی نظام بھی بہت بری طرح متاثر ہوا ہے۔اس مشکل وقت میں حکومت ،تعلیمی اداروں اور معاشرے پر یہ ذمہ داری عاٸد ہوتی ہے کہ وہ باہمی تعاون سے تعلیمی نظام کو دوبارہ بحال کریں۔
تعلیم ہی ترقی یافتہ معاشرے کی پہچان ہوتی ہے۔
حضرت معاذبن جبلؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا” علم سیکھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کیلیے علم سیکھنا خشّیت، اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنا عبادت، اسکا پڑھنا پڑھانا تسبیح، اسکی جستجو جہاد ، ناواقف کو سکھانا صدقہ اور اسکی اہلیت رکھنے والوں کو بتانا ثواب کا ذریعہ ہے۔نیز علم تنہاٸی کا ساتھی، دین کا راہنما، خوشحالی و تنگدستی میں مددگار، دوستوں کے نزدیک وزیر، اور جنت کی راہ کا مینارِ ہدایت ہے۔
علم ہی کے ذریعے اللہ کی اطاعت و عبادت کیجاتی ہے۔ اسکی حمدوثنا ہوتی ہے،اسی سے پرہیزگاری ہوتی ہے، اسی سے صلہ رحمی کیجاتی ہے، اسی سے حلال اور حرام میں فرق جانا جاتا ہے۔
تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیرہو یا غریب ،مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے۔یہ انسان کا حق ہے جو کوٸی اس سے چھین نہیں سکتا۔انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہے۔غزوہ بدر کے قیدیوں کی رہاٸی کیلیے فدیہ کی رقم مقرر کی گٸی تھی ان میں سے جو نادار تھے وہ بلا معاوضہ ہی چھوڑ دٸیے گٸے۔ لیکن جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ،انہیں حکم ہوا کہ دس ،دس بچوں کو لکھنا ،پڑھنا سکھادیں تو چھوڑ دیے جاٸیں گے۔چنانچہ سیّدنا زید بن ثابتؓ نے جو کاتب وحی تھے ۔اسی طرح لکھنا سیکھا تھا۔
اسی بات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیم کی اہمیت کیا ہے۔اور اسکا حصول کتنا ضروری ہے۔
تعلیم نام ہے کسی قوم کی روحانی اور تہذیبی قدروں کو نٸی نسل تک پہنچانے کا، کہ وہ انکی زندگی کا جز بن جاۓ۔ جب بھی مسلمان علم اور تعلیم سے دور ہوۓ وہ غلام بنا لٸے گٸے یا پھر جب انہوں نے تعلیم کے مواقعوں سے خود کو محروم کیا وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے۔
قرآن مجید میں لگ بھگ پانچ سو مقامات پر حصول تعلیم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
” جو شخص طلبِ علم کے راستے پر چلا،اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیا“۔
اسوقت ہمارے مروّجہ روایتی طریقہ تدریس میں بچوں کیلیے کوٸی کشش باقی نہیں رہی۔بچے سکول، کالج اور جامعات میں جانے سے کتراتے ہیں۔لگ بھگ 70 فیصد بچے سکول جاتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بھی کچھ فیصد بچے پراٸمری سطح کی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ روایتی طریقہ تدریس میں کوٸی تبدیلی نہیں کی گٸی اور دوسری وجہ مہنگاٸی کی شرح میں اضافہ ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو چاٸلڈ لیبر کے طور پر کام میں مشغول کروا دیتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی دلچسپی کے لیے دیگر پروگراموں کو ترتیب دے کر ان میں دلچسپی کا سامان پیدا کیاجاۓ۔

@Ra_jo5

Leave a reply