آج کے اس پر آ شوب اور تیز تیرین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کا حامل ہے چاہے زمانہ کتنا ترقی کرلے حالانکہ آ ج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے۔ ایٹمی ترقی کا دور ہے، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے۔مگر اسکول میں بنیادی عصری تعلیم، ٹیکنیکل تعلیم، انجینٔرنگ، وکالت ، ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا
آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہے۔ جدید علم تو ضروری ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بہی اہمیت اپنی جگہ مسمم ہے ، اس کے ساتھ ساتھ انسان کو انسانیت سے دوستی کے لیے اخلاقی تعلیم بہی بے حد ضروری ہے۔ اسی تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خدا پرستی عبادت،محبت ، خلوصِ، ایثار، خدمت خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح اور نیک معا شرہ کی تشکیل ہو سکتی ہے۔
تعلیم کے حصول کے لیے قابل اساتذہ بہی بے حد ضروری ہیں جو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ استاد وہ نہیں جو محض چار کتابیں پڑھ کر اور کچھ کلاسز لے کر اپنے فرائض سے مبرا ہو گیا بلکہ استاد وہ ہے جو طلباء وطالبات کی خفیہ صلاحیتوں کو پیدا کرتا ہے اور انہیں شعور و ادراک، علم و آگہی نیز فکر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ جن اساتذہ نے اپنی اس ذمہ داری کو بہتر طریقے سے پورا کیا. ان کے شاگرد آ خری سانس تک ان کے احسان مند رہتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر آ ج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ پیشہ تدریس کو بہی آ لودہ کر دیا ہے۔
محکمہ تعلیمات اور اسکول انتظامیہ اور معاشرہ بھی ان چار کتابوں پر قانع ہوگیا۔کل تک حصول علم کا مقصد تعمیر انسانی تو آج نمبرات اور مارک شیٹ پر ہے۔مگر افسوس کہ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں پر مفاد پرست ٹولہ قصر شاہی کی طرح قابض رہا ہے
جن کے نزدیک اس عظیم پیشہ کی قدرو قیمت کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے،بدقسمتی اس بات کی بھی ہے کچھ ایسے عناصر بھی تعلیم کے دشمن ہوئے ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہمارے تعلیمی نظم کے درمیان ایسی کشمکش کا آغاز کررکھا ہے جس نے رسوائی کے علاوہ شاید ہی کچھ عنایت کیا ہو۔ مگر پھر بھی جس طرح بیرونی دنیا کے لوگ تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی کبھی جدید تعلیم دور نہیں رہے بلکہ جدید زمانے کے جتنے بھی علوم ہیں زیادہ تر کے بانی مسلمان ہی ہیں۔موازنا کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ آج یورپ تک کی جامعات میں مسلمانوں کی تصنیف کردہ کتابیں نصاب میں شامل ہیں۔
@itx_Nazish
نـــازش احمــــد