وہ قومیں جو تعلیم کو حقیر سمجھتی ہیں وہ ایک نا ایک دن برباد ہو جاتی ہیں، یہ مثال ہمارے معاشرے پر پوری طرح سے فکس آتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے لکھاری بھی مغربی لکھاریوں کی زبان استعمال کرتے ہیں، چونکہ ہمارے پاس سوچ کی تو کمی ضرور ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ تنقید کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں، اسی وجہ سے یورپی تاریخ ادب کا ماڈل ہمارے ذہنوں میں اس قدر شامل کیا جاچکا یے کہ ہم اپنی تاریخی عمل کو بھی یورپی نقطہ نظر سے سمجھنے اور دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک قوم کو تاریخ کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟؟
تاریخ کی ضرورت تب ہی محسوس ہوتی ہے جب مظلوم، لاچارکمزور، بےسہارا اور استحصال شدہ لوگوں کو ان کے اپنے جائزحقوق دلائے جائے۔
ایلن مسلو کہتا ہے ” کہ ماضی نہ تو دریافت کیا جاتا ہے اور نہ ہی چپھا ہوا پایا جاتا ہے یہ مورخ ہیں جو اس کو تخلیق کرتے ہیں”
اب اگر ملک پاکستان کی تاریخ کا ذکر کیا جائے۔ تو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ماضی کی تشکیل نو کی جائے یہ اس لیے نہی کہ ماضی کو شاندار بنا کر اس پر فخر کیا جاسکے، بلکہ اس لیے کہ ہماری پسماندگی اور زوال کے اسباب کو سمجھا جا سکے ۔ اور یہ بھی زیر غور کیا جائے کہ کن وجوہات کی بنیاد پر ہمارا معاشرہ منجمد ہو کر رہ گیا ہے اس وقت ہمارے مسلم اقوام میں مذہبی اور سیاسی دونوں اختلاف موجود ہیں.
جسکی وجہ سے ذہنی ثقافتی اورسماجی ترقی نہیں ہو رہی ہے۔ اس نے معاشروں اور معاشرے کے لوگوں کو اس قدر پسماندہ کردیا ہے کہ ان موجودہ دور کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی ذہنی دلائل اور عقلی استدلال نہیں لا سکتا۔ اس لیے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آخر دنیا میں ہم مسلمانوں کی ہی عزت کیوں نہیں ہے؟ تو اس کا جواب ایک ہی ملتا ہے کہ دنیا میں ان قوموں کا احترام ہوتا ہے اور ان کی عزت کی جاتی ہے جو دنیا کے تہزیب و تمدن اور تقافت میں اضافہ کرتی ہیں اور اس میں حصہ لیتی ہیں۔ جو علم کی تخلیق کرتے ہیں اور اسکو زرخیز بناتی ہیں۔
@Malik_Fahad333