علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب
انسان جنت سے زمین کا مسافر ہوا تو زندگی کی شروعات انتہائی سادگی سے کی
جوں جوں وقت گزرتا گیا انسان اپنے اردگرد کی چیزوں کے بارے میں کھوج لگاتا رہا اور ان کے بارے میں جاننے لگا انسان کی اس کھوج لگانے اور اردگرد کے بارے میں جاننے کی کوشش کو علم کہتے ہیں اور علم حاصل کرنے کو تعلیم کہتے ہیں
اگر ہم تعلیم کے حوالے سے اسلام کی بات کریں تو اسلام دین فطرت ہے اسلام تعلیم کی طرف بلاتا ہے اسلام دعوت دیتا ہے کہ زمین میں جو کچھ ہے اسے تلاش کرو جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
"اے ایمان والو زمین کی سیر کرو اور اس میں جو کچھ ہے اس کی تلاش کرو”
تعلیم کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے شمار احادیث بیان فرمائی ہیں ان میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:
"علم حاصل کرو ماں کی گود سے لے کر قبر تک”
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے”
ہمارے ہاں تعلیم کے بنیادی طور دو نظام رائج ہیں ایک دینی تعلیم ایک دنیاوی تعلیم
دینی تعلیم میں قرآن پاک،احادیث اور فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ دنیاوی تعلیم میں سائنس آرٹس اور دیگر علوم کی تعلیم دی جاتی ہے
دنیاوی تعلیم کی بات کریں تو اس کے مختلف نظام ہیں سرکاری اسکولوں میں اردو میڈیم پرائیویٹ اسکولوں میں انگلش میڈیم اور اس کے علاوہ کیمبرج آکسفورڈ وغیرہ کے نظام ہیں
اس تقسیم نے پاکستان کے طلباء کے درمیان تفریق پیدا کر دی ہے پاکستانی طلباء کی سوچ بٹ چکی ہے اردو میڈیم والے طلباء کو انگلش میڈیم والے طلباء اچھے نہیں لگتے انگلش میڈیم والے طلباء کو اردو میڈیم والے طلباء گوار لگتے ہیں آکسفورڈ اور کیمبرج والے طلباء خود کو اعلیٰ مانتے ہیں
اس کے علاوہ جو تعلیم ان سب ذرائع سے مل رہی ہے اس سے کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچ رہا کوئی تعلیم حاصل کر کے مغرور بن رہا ہے تو کوئی بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے کوئی پیسہ کے پیچھے بھاگ رہا ہے تو کوئی اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہا ہے
بقول شاعر
جس قوم کے بچے نہیں خود دار و ہنر مند
اس قوم سے تاریخ کے معمار نہ مانگو
اس سے آگے چلیں تو امتحان کا نظام آتا ہے جو شروع سے بہت کمزور رہا ہے اس نظام میں کئی خامیاں موجود ہیں یہاں طالب علم کی قابلیت، محنت ممتحن کی مرہون منت ہوتی ہے اگر اس کا مزاج اچھا ہو تو طالب علم کی محنت وصول ہو جاتی ہے اگر وہ غصے میں ہو تو طالب علم کی محنت ضائع ہو جاتی ہے
اس کے علاوہ امتحان کے نظام میں رشوت خوری عام ہو چکی ہے امیر طلباء بغیر محنت کے پاس ہو جاتے ہیں جبکہ غریب طلباء محنت کر کے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں یہ نظام طلباء کے لیے باعث مایوسی ہے
اور اوپر سے ستم یہ کہ کورونا وائرس آ گیا کورونا وائرس نے تعلیمی نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے نہ طالب علم کو پتا ہوتا ہے کہ اسکول کب کھلیں گے نہ یہ پتا ہوتا ہے کہ کب اسکول بند ہوں گے اس کی تازہ مثال پچھلے سال ہونے والا ایم ڈی کیٹ کا امتحان ہے جہاں لاکھوں طلباء میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے امتحان دے رہے تھے لیکن آخری وقت تک تاریخ بدلتی رہی جس کی وجہ سے مجھ سمیت لاکھوں طلباء ذہنی اذیت میں مبتلا رہے
اب آتے ہیں طالب علموں پر دنیا بھر میں کئی طرح کے طالب علم ہوتے ہیں محنتی بھی ہوتے ہیں کام چور بھی اسی طرح پاکستان میں بھی طالب علموں کا امتزاج ہے لیکن کورونا وبا نے طلباء کی اکثریت کو پڑھائی سے بیزار کر دیا ہے اب طالب علم ہر وقت تعلیم سے راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر چند نام نہاد راہنماؤں کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں ہر وقت امتحان منسوخ کروانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں یہ صورت حال پاکستان کے لیے بہت افسوس ناک ہے
لیکن اس کے باوجود گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ہم سب مل کر اس نظام میں بہتری لا سکتے ہیں بطور طالب علم ہمیں اپنے اندر ولولہ پیدا کرنا ہے اور یک نصابی کتب کے حوالے سے موجودہ حکومت کی کوششیں قابل تعریف ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں تعلیم کے میدان میں کامیابی عطاء فرمائے آمین ♥️
تحریر: فضل عباس









