تعلیمی اداروں میں کیمرے کیوں ضروری ۔۔۔تحریر:حنا

جیسا کہ آپ جانتے ہیں ۔ہمارے ملک میں بدفعلی زنا اور فحاشی دن بدن بڑتی جارہی ہے ۔حکمران ریاست حتی کہ سبھی لوگ بے بس نظر آتے ہیں ۔۔کہ اس بدفعلی کو کیسے روکا جاے ۔آئے روز ِنت نئے کیس دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ دنیا بھر کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی اداروں میں کیمرے نصب کیے جاتے ہے اساتذہ سمیت بچوں کی ہر نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے ۔بطور مسلمان ہم سب جانتے ہیں فحاشی اور بدفعلی گناہ ہے جرم ہے اور اسلام میں اس کی کیا سزا ہے ۔
زنا کی سزا بتاتے وقت ۔
اللہ تعالی نے فرمایا ۔
اور تمھیں اللہ کے دین کے نفاد کے متعلق ان دونوں کے بارے میں کوئ ترس نہ آئے ۔
اگر تم اللہ تعالی اور یوم آخرت پر یقین رکھتے ہو ۔
(النور 2:24)
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲)ترجمہ: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
زنا کرنے والا شخص اگر غیر شادی شدہ ہے تو اس کی سزا سو (۱۰۰) کوڑے ہیں اور اگر شادی شدہ ہے تو اس کی سزا سنگسار کیا جانا ہے، آدھا جسم زمین میں گاڑ کر پتھروں سے اسے مارا جائے یہاں تک کہ اس کی جان نکل جائے۔ ایسی سزا کو حدود اللہ کہا جاتا ہے جس کا جاری کرنا حاکم اسلام کا کام اور ذمہ داری ہے، 

پاکستان میں اس وقت تین بڑے مکتبہ فکر ہیں جنکے مدارس کثیر تعداد میں پورے پاکستان میں پھیلے ہوۓ ہیں دیوبندی مکتبہ فکر کا الحاق وفاق المدارس سے ہے جس سے تقریبا 18600 مدارس منسلک ہیں جنمیں 20 لاکھ کے قریب طلباء طالبات زیر تعلیم ہیں جبکہ بریلوی مکتبہ فکر کا الحاق تنظیم المدارس سے ہے اور اس سے تقریبا 9000 بریلوی مدارس منسلک ہیں جنمیں 13 لاکھ طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں
اس طرح اہل حدیث مکتبہ فکر کا الحاق وفاق المدارس اسلافیہ سے ہے اس کے تحت تقریبا 1400 مدارس ملک بھر میں فعال ہیں جنمیں کل ملا کے 39000 طلباءوطالبات زیر تعلیم ہیں
خلاصہ یہ نکلا کے پاکستان میں 29000 رجسٹرڈ مدارس ہیں جنمیں 3339000 طلباءوطالبات زیر تعلیم ہیں
اسی طرح دنیاوی تعلیم کے اداروں پر بات ہو تو سرکاری غیر سرکاری ابتدائی مڈل سیکنڈری کالج یونیورسٹی سمیت 2234255 ادارے دنیاوی تعلیم کے لیۓ پاکستان میں فعال ہیں جنمیں قریب 8 کروڑ قوم کے بچے بچیاں زیر تعلیم ہیں

پاکستان بھر میں مدرسہ ہو یا کالج یونیورسٹی ہو یا جامعہ الا قلیل ہر ایک ادارے میں ہفتے مہینے میں ایک دو کیس ایسے ضرور سامنے آتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے طلباء نے آپس میں یا طالب علم نے طالبہ سے یا ٹیچر نے طالبہ کیساتھ قاری نے بچے کیساتھ ٹیچر نے شاگرد کے ساتھ پروفیسر نے طلبہ کے ساتھ زیادتی کی ہے اور سینکڑوں ایسی زیادتیاں ہوتی ہیں جو سامنے ہی نہیں آتیں بچے مسلسل زیادتی کا شکار ہو ہو کر مفلوج ہو جاتے ہیں کچھ عرصہ پہلے گجرانوالہ کی دینی درسگاہ کی ویڈیو سامنے آئی تھی اس طرح اک کالج میں کلاس روم کے سیکنڈل کی بھی لاہور یونیورسٹی میں ایک طلبہ کا گینگ ریپ بھی مانسہرہ کے قاری شمس الدین کی زیادتی ہو یا آئے روز جو دین کے ٹھیکدار ہوتے ۔جو خود کو دین کا وارث کہتے ہیں آئے روز ان کی بدفعلی کی وڈیو آرہی ہے ۔

اگر ہم سیاست سے بالاتر ہو کر دیکھیں ۔تو ہمارے آس پاس ان گنت بچے اس وقت زیادتی کے بعد قتل کیے جا چکے ہیں. انصاف نہیں ملتا ۔۔کیوں؟ اس کی ایک بڑی وجہ ہے ۔۔میرے حکمرانوں کی خاموشی ۔۔۔موجودہ حکمران ہوں یا ماضی کے ۔۔سبھی ہمیشہ تب بولتے ہیں جب قتل یا درندگی سے متاثرہ ہونے والے بچے کا تعلق مخالف پارٹی کے صوبے یا علاقے سے ہو ۔۔ہمیشہ اس وقت انصاف کا رونا رویا جاتا ہے جب مخالف کو ذلیل اور لعن طعن کرنا ہو ۔حکمران انبیاء اور صحابہ کی مثالیں عوام کو تو دیتے ہیں لیکن خود عمل کیوں نہی کرتے درندگی فحاشی کتنا ہی بڑھ گئ ہو ۔اسے روکنا حکمرانوں پر فرض ہے ۔۔لیکن میرے حکمران تو جیسے ستو پی کر سووے ہووے ہیں ۔۔جناب عالی صرف گرفتار کرنے کو سزا دینا نہیں کہتے ۔۔کہ کسی نے جرم کیا تو آپ نے اسے سزا دے دی ۔۔جیلوں میں عیاشی کی زندگی دے دی ۔۔اور پھر وہی مجرم پولیس کو رشوت دے کر ضمانت کروا لیتا ہے ۔۔۔خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چوبیس لاکھ مربع میل کر حکومت کی……..راتوں کو اٹھ اٹھ کر پیرا دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے…..کہتے تھے اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ )سے اس بارے میں پوچھ ہو گی……

۔۔جب مدرسہ کا مولوی بچے کے ساتھ زنا کرتا ہے ۔ قتل کرتا ہے تو تمام علماء خاموش ہوتے ہیں ۔مگر ڈگری والے ماسٹر رونا ڈال رہے ہوتے ہیں ۔انصاف کا ۔۔ اصل میں انصاف کا نہیں ۔بلکہ مدرسے کو بدنام کرنے کا اور اس وقت میری تمام حقوق کی تنظیمیں بھی بڑھ چڑھ کہ بولتی ہے میرے اداکار میرے گلوکار چینلوں پہ کالے رنگ کے لباس پہن کہ آجاتے ہیں۔مگر انصاف نہیں مانگتے ۔انصاف مانگتے تو جس مولوی کی غلطی ہو وہ اس کی سزا کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں لیکن وہ تمام مولوی طبقے کو گالی گلوچ مدرسوں کو غلط جگہ قرار دے کر اپنا الگ ہی بغض نکالنے لگ جاتے ہیں ۔ مدرسے کو بدنام وہ تمام مولوی طبقہ بھی کرتا ہے جو ایک مولوی کی غلطی پہ گناہ پہ خاموش ہوتا ہے ۔وہ تمام حافظ قرآن وہ تمام عالم بھی اس گناہ میں شامل ہوتے ہیں کیونکہ وہ خاموش رہے ۔اب آپ لوگ مجھے کہیں گے ۔تم علماء کو برا کیوں بول رہی ۔۔ باقی جگہوں پر بھی تو ایسا ہوتا ہے ۔۔ارے باقی جگہیں خدا کا گھر نہیں کہلائ جاتی مساجد مدارس کو خدا کا گھر کہا گیا ہے ۔۔اور علماء کا رتبہ بہت بلند رکھا گیا ہے ۔۔قرآن جیسی عظیم کتاب پڑھانے والا بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے والا ایسا فحش عمل کرے گا تو سوال تو ہوں گے ۔۔ انگلی تو اٹھے گی ۔۔صرف اس پر نہیں ہر مولوی ہر داڑھی والے پر کہ کہیں یہ بھی ایسا تو نہیں ۔۔ایک مچھلی گندی ہو تو پورا تالاب گندہ کرتی ہے۔۔۔دوسری بات ۔جب سکول کالجز یونیورسٹیوں میں کسی لڑکی لڑکے کے ساتھ غلط ہوتا ہے یا قتل ہوتا ہے تو میڈیا خاموش ہوتا ہے ۔میرے حکمران خاموش ہوتے ہیں ۔میرے اداکاروں میری گلوکاروں کے سیاہ رنگ کے لباس گم ہو جاتے ہیں ۔کیوں؟ کیوں کہ وہ جگہیں ڈگری والوں کی ملکیت ہوتی ہے ۔۔وہاں منہ بند رکھنے کے پیسے ملتے ہیں میڈیا مالکان کو ۔حقوق کے علمبرداروں کو ۔موم بتی مافیا کو ۔وہاں ہر تیسرا بندہ یہ کہ کر جھٹلا دیتا ہے کہ لڑکی ہی غلط ہو گی ۔لڑکا ہی غلط ہو گا ۔۔۔والدین ہی برے ہوں گے ۔۔۔ آج زنا کی اس وباء سے چھوٹے چھوٹے بچے بھی محفوظ نہیں۔وہ لڑکا ہو یا لڑکی ۔۔آج یہ کہنا کہ لڑکی نے ہی ورغلایا ہوگا ۔۔یا یہ کہنا بچی کا لباس پورا نہ تھا تو مرد بہک گیا ۔۔ایک ماں کا لاڈلہ بہک گیا ۔۔دین کا خودساختہ ٹھیکدار بہک گیا ۔۔یا سکول ماسٹر پروفیسر بچے کی خوبصورتی اور میک اپ کو دیکھ کر بہک گیا یہ بالکل غلط بات ہے۔ سال دو سال کے بچے جو ماں تک بولنا نہی جانتے ہوتے ۔ وہ بھی محفوظ نہیں ۔۔کیوں؟ اس کے ذمہ دار آپ سب بھی ہے ۔آپ نے کیوں نہیں مانگا انصاف ۔۔اسماء کے لیے ۔عاصمہ کے لیے ۔مدیحہ کے لیے ۔آمنہ کے لیے ۔ ۔نور کے لیے ۔ہادیہ کے لیے ۔رضوان کے لیے ۔عامر کے لیے ۔اور ان جیسے بے شمار بچوں کے لیے ۔۔آپ کیوں صرف اک دوسرے کی مخالفت پہ ہی بولتے ہو۔سرے عام پھانسی پر کیوں نہیں بولتے ؟کیوں نہیں سرے عام سنگسار کی بات کرتے۔۔کوی بھی بندہ کسی دوسرے کے ایسے جرم پر اسے سنگسار نہیں کر سکتا ۔۔یہ قانون حکمران بناتا ہے حکمران مجرم کو سنگساری کی سزا دے سکتا ہے ۔

کچھ ماہ قبل جب بشریٰ انصاری نے مدارس میں کیمرے لگانے کا مطالبہ کیا تو ایک مشہور سلفی دانشور نے غلاظت اگلتے ہوئے اس مطالبے پہ بشریٰ کو طوائف قرار دیا تھا۔وہ اداکارہ ہے تو وہ طوائف ٹھہری اور مذہب کے نام پر بدفعلی کرنے والے کیا کہلاے؟
ہاں یہ کہا جاسکتا تھا کہ سکولوں کالجوں میں بھی کیمرے لگاے جائیں ۔آپ مدرسوں میں کیمرے لگاو کوی مولوی مخالفت کرے اسے الٹا لٹکاو ۔۔علماء مولوی کو بھی ہم نے خدا سمجھ لیا ہے ۔۔کہ وہ گناہ کر ہی نہیں سکتا اور اگر کرتا ہے تو چپ کر جاو خاموش ہو جاو ۔۔نہ جانے کیوں یہ سوچ لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کی ہووی ہے ۔کہ عالم حافظ کو سزا کی بات کی تو دین خطرے میں پڑھ جاے گا ۔۔۔ارے دین کو سب سے زیادہ بدنام خود یہ علماء کررہے ہیں علماء کے بارے ایک فرمان ہے
عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔” (بیہقی)۔۔۔تو علماء کو علماء ہی سمجھیے ۔۔خدا یا رسول نہیں کہ یہ مجرم ہے تو خاموش ہو جاو

ہم ملکر حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں ۔پورے پاکستان میں خفیہ کیمرے نصب کیے جائیں
مدارس میں کیمرے لگائے جائیں ۔ بشرطیکہ وہ کیمرے کالج، یونیورسٹی،ایم این اے، ایم پی ایز کے ریسٹ ہاؤسز، افسران کے دفاتر، پولیس، وکلاء اور بڑے بڑے دفاتر جو حکومت کے ماتحت ہے ہر جگہ خفیے کیمرے نصب کیے جائیں ۔۔ہاں یہ مفت کا کام نہیں ہے اس پہ بہت پیسہ لگے گا ہم عوام دیں گے پیسہ ۔۔ویسے بھی ہم بہت ٹیکس دیتے ہیں ۔۔چند پیسے اگر ہماری نسل کے تحفظ پہ لگ جائیں تو ہمیں قابل قبول ہے ۔۔آپ کیمرے لگائیں ۔پھر دیکھیں گے ۔۔برائی کس جگہ سے جنم لے رہی ہے ۔۔۔اور کون اس برائ سے پاک صاف ہے

۔

Article Writer Name

Hina 

 

Comments are closed.