٩/١١کے بعد امریکا نے افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو امریکہ اور عالمی دنیا کے دباو میں مجبور ہوکر ہمیں امریکہ کو راستے بھی دینے پڑے ،کیونکہ ہم راستے نا دیتے تو شائد دنیا ہم پر کئ سخت پابندیاں لگاسکتی تھی جوکہ ہمارے اپنے ملک کے لئے بہت نقصاندہ ہوتا ،ادھر امریکہ کو راستے دینے پر طالبان نے ہمیں امریکی ایجنٹ تسلیم کرلیا
اور نئ جنگ کا آغاز شروع ہوچکا جس کے نتیجے میں کئ لاکھ افغان پناھ گزینوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی اور ہم نے ان کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مسلماں بھائیوں اور ان کے خاندانوں کو پاکستان میں نا صرف کھلے دل سے خوش آمدید کہا بلکہ ہم نے ان کے لئے کوئی مخصوص کیمپس یا علائقہ نہیں رکھا بلکہ اتنی حد تک آزادی دی کہ وہ پورے پاکستان میں جیسے چاہیں ،جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں وہاں افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ایک حکومت تشکیل دی گئی

بقول طالبان کے حامد کرزئی کی حکومت امریکہ نے اپنے مفاد کے لئے بنائ ہے اس حکومت کا افغان سرزمین یا یہاں کے باشندوں سے کوئی تعلق نہیں اس لئے طالبان نے نا صرف امریکہ بلکہ افغان حکومت کے خلاف بھی جنگ کا اعلان کیا پاکستان کو اس جنگ کا خمیازہ بھی اس لئے بھگتنا پڑا کیونکہ ہمیں بھی امریکی ایجنٹ کا لقب دیا جاچکا تھا ،اسی سلسلے میں TTPکے دھشتگردوں نے پاکستان میں آرمی،سول اداروں ،ہمارے بازاروں،مسجدوں،اسکولوں سمیت ہر جگہ پر حملے کئے وہاں سے امریکہ کا جب دل چاہتا پاکستان میں ڈروں ماردیتا تھا جس کے نتیجے میں TTPکو ذیادہ فائدہ ہوتا تھا کیونکہ TTPقبائلی علائقوں میں مضبوط ہوتی گئ اور عوام کو پاکستان آرمی اور حکومت کے خلاف بھڑکانے میں مصروف رہی اس وجہ سے ڈرون حملے میں جس کے خاندان کے لوگ شہید ہوتے تو وہ ہتھیار اٹھالیتا پاکستان کے خلاف اسی وجہ سے ہمارے ملک میں بھی ایک جنگ سی کیفیت پیدا ہوگئ ،آئے روز دھماکوں سے نا صرف خوف کا عالم پیدا ہوگیا بلکہ اس کے نتیجے میں ہمیں ٧٠ ہزار سے زائد جانوں کے نزرانے اور اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ،بہرحال ہماری پاک افواج کی بہترین حکمت عملی سے ہم نے پاکستان میں دھشتگردی پر قابو پالیا اور ادھر افغانستان میں امریکہ اور طالبان کی جنگ اپنی آخری مراحل کی طرچ جاچکی تھی ٢٠ سالوں کی اس جنگ میں امریکہ کو مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو ایک بار پھر اپنی عزت بچانے کے لئے امریکہ نے پاکستان سے درخواست کی کہ کسی طرح طالبان اور امریکہ کے مزاکرات کروائے ہیں آخرکار پاکستان نے اپنی کوششوں سے امریکہ اور طالبان کو آمنے سامنے بٹھایا اور مزاکرات شروع ہوئے جس کے بعد امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا شروع کردی اور اب ایک بار پھر طالبان افغانستان پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں

پاکستان نے واضع موقف اپنایا ہے کہ ہم کسی صورت ایسی کسی حکومت کو سپورٹ نہیں کریں گے جو افغان عوام کی خواہشات کے خلاف ہو اس لئے پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان پرامن مزاکرات ہوں تاکہ افغانستان کی عوام بھی سکون سے اپنی زندگی کزارسکیں اور مستقبل کا فیصلہ افغان عوام پر چھوڑا جائے کہ وہ کس کی حکومت چاہتے ہیں
اس سارے معاملات میں جہاں امریکہ،افغان حکومت اور طالبان سب پاکستان حکومت کے کردار کی تعریف کررہی ہے وہیں
چند شرپسند عناصر اور خاص طور پر انڈیا پاکستان پر الزام تراشی کرتے نظر آرہے ہیں کہ طالبان کی پشت پر پاکستان کھڑا ہے حالانکہ پاکستان کا واضع موقف دنیا کے سامنے ہیں لیکن چونکہ انڈیا نے افغانستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری جس کا مقصد افغان حکومت کو اپنا بناکر یہاں سے پاکستان کے خلاف دھشتگردی اور تخریب کاریاں کی جائیں گی تاکہ پاکستان کو کمزور کیا جاسکے لیکن افغانستان کی بدلتی صورتحال میں انڈیا کو اپنی ساری سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آرہی ہے اس لئے وہ اب اس پروپگینڈہ کو فروغ دے رہے ہیں کہ پاکستان اور طالبان ایک ہی ہیں

لیکن انڈیا شائد بھول گیا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کی عوام کا رشتہ ١۴ سو سالوں پر محیط ہے ہم دونوں اطراف کے المسلم اخو مسلم کے رشتے سے بندھے ہیں ،ہم ایک دوسرے کے بھائی ہیں ،ہم دونوں اطراف امن کے داعی ہیں آج بھی افغانستان کا بچہ بچہ پاکستان سے اتنی ہی محبت کرتا ہے جتنی محبت پاکستانی افغانستان کے لوگوں سے کرتے ہیں
پاکستان کی امن کوششوں کو دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے ،دنیا پاکستان کی تعریف کررہی ہے
اور ہم پاکستانی ہماری حکومت ،افواج ،انٹیلجنس ادارے سب اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان کے حالات جلد سے جلد بہتری کی طرف جائیں تاکہ افغانستان میں بھی ایک عوامی حکومت آئے جو افغان عوام کی امنگوں کے مطابق کام کرے اور اس خطے میں ایک بار پھر سے امن و سکون کی ہوا چلے
جزاک اللہ

Shares: