۔ جیسے جیسے امریکی و مغربی افواج کا انخلا اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے، افغان علاقوں میں کشیدگی شدت اختیار کر رہی ہے اور افغان طالبان کی پیش قدمی میں تیزی آرہی ہے۔ طالبان نے افغانستان میں صوبہ ہرات کے سرحدی علاقے اسلام قلعہ پر قبضہ کرلیا ، یہ علاقہ ایرانی سرحد سے جڑا ہوا ہے ۔ جبکہ اس سرحدی علاقے میں افغان فوجی پسپائی اختیار کرتے ہوئے ایران میں پناہ کے لیے داخل ہوگئے۔

۔ اس سے پہلے طالبان نے وسط ایشیائی سرحدی ریاستوں سے جڑے صوبوں میں بھی بعض علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا جس کے سبب افغان فوجیوں کو پسپائی اختیار کرکے وسط ایشیائی ممالک میں پناہ لینا پڑی تھی۔ اس افغان صورتحال پر پاکستان میں ایران کے سفیر سید محمد علی حسینی نے کہا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا خطرہ منڈلا رہا ہے جس سے خطرناک صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ ایران کے سفیر نے الزام لگایا کہ امریکا نے پہلے شام، عراق میں داعش کو پالا اور اب افغانستان میں داعش کو لے کر آیا ہے۔ ایران مزید افغان مہاجرین نہیں لے سکتا اور نہ ہی لے گا۔ دوسری جانب ایران کے بعد طالبان قیادت مذاکرات کے لیے روس کے دارالحکومت ماسکو پہنچ گیا ہے۔طالبان نے یقین دہانی کرائی کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔یہاں یہ ذہن میں رکھیں کہ طالبان کا وفد ایسے وقت روس پہنچا ہےجب روس کے اتحادی تاجکستان کے سرحدی علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہوگیا ہےاور تاجکستان نے اپنے 20 ہزار فوجی سرحد پر تعینات کردیے ہیں جبکہ روس کے وزیرخارجہ کا کہنا ہےکہ ان کا ملک تاجکستان میں موجود اڈے کو اپنے اتحادیوں کی حفاظت کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔

۔ افغانستان کے بگڑتے حالات کے پیش نظر پڑوسی ملکوں کی جانب سے بھی سرحدوں پر سختی کردی گئی ہے۔ دیکھا جائے تو حالات ایک بار پھر نوے کی دہائی کی جانب پلٹتے محسوس ہورہے ہیں جب امریکہ نے روسی شکست کے بعد افغان سرزمین کو خانہ جنگی میں دھکیل کر واپسی کی راہ لی تھی۔ پر اس وقت افغانستان میں اربوں ڈالر خرچ کرنے والا بھارت نئی صورت حال سے پریشان ہوگیا جبکہ بھارتی میڈیا بھی بوکھلا گیا ہے ۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ طالبان نے ہرات میں بھارتی فنڈ سے بنے ڈیم پر قبضہ کر لیا جبکہ افغان حکومت اور طالبان نے بھارتی میڈیا رپورٹس کی تردید کردی۔ اب بھارت نے حالات کے پیش نظر کابل میں اپنے سفارت خانے کے علاوہ مزار شریف اور قندھار میں قونصل خانوں سے 500 کے قریب اسٹاف کو نکالنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کا زخم خوردہ بھارت اپنے پرانے حلیف تاجکستان کے ساتھ مل کر اکٹھی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ تاجکستان کا خیال ہے کہ وہاں پر موجود کالعدم حزب نہضتِ اسلامی کے لوگوں کو طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ایک نیا ولولہ ملے گا، جبکہ بھارت کی شمالی اتحاد کو لاکھوں ڈالر کی خفیہ عسکری امداد ضائع ہونے کا دکھ ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے افغانستان مین تین ارب ڈالر سے جو ترقیاتی کام کیے تھے وہ ساری سرمایہ کاری ضائع ہوگئی ہے۔ افغانستان میں بھارت دوستی اور پاکستان دشمنی کا جو پودا لگایا گیا تھا، اسے طالبان کی فتح نے جڑ سے اکھاڑ دیا ہے۔

۔ آپ دیکھیں پہلے دوستی و محبت کا یہ عالم تھا کہ افغانستان کی پارلیمنٹ کی عمارت جو بھارت نے بنائی تھی،اس میں 25دسمبر 2015ء کو افتتاحی تقریب میں نریندر مودی نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے آپ کو ہم سے دوستی سے روکے رکھا اور آج ہم پاکستان کو شکست دے کر آپ سے دوستی کی روایت کو زندہ کر رہے ہیں۔ اسی دن مودی اور اشرف غنی نے واجپائی کے نام پر اٹل بلاک کا افتتاح بھی کیا۔ آج وہ پانچ فیصد افغانستان جوکبھی طالبان حکومت کے خلاف بڑا میدانِ جنگ تھا، سب سے پہلے وہی طالبان کے کنٹرول میں آچکا ہے۔ ایسے حالات میں بھارت اور تاجکستان کا خوفزدہونا لازم تھا۔ ساتھ ہی کچھ معلومات امریکہ نے جاری کی ہیں ۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغانستان میں مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے۔ پینٹاگان کے مطابق سی 130 مال بردار طیاروں کی 984 پروازوں کے ذریعے فوجی سازوسامان افغانستان سے باہر منتقل کیا جاچکا ہے۔ ان میں سے 17074 فوجی آلات ٹھکانے لگانے کے لیے ڈیفنس لاجیسٹکس ایجنسی کے حوالے کیے گئے ہیں۔ پر اس جنگ کی کچھ تلخ حقیقتیں بھی ہیں ۔ امریکہ کی اس افغان وار میں دو لاکھ 41 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ جن میں دو ہزار 442 امریکی فوجی بھی شامل ہیں۔ جبکہ پاکستان میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 67 ہزار ہے۔ ستائیس لاکھ افغان مہاجرین ایران،پاکستان اور یورپ میں آئے جب کہ چالیس لاکھ ملک کے اندر ہی در بدر ہوئے۔

۔ یہ تو پوری دنیا میں’خدشہ‘ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکی فوج کا مکمل انخلا ہوتے ہی افغانستان پر طالبان کا راج قائم ہوجائے گا۔ ۔ یہی امارت اسلامیہ کا ترجمان ماہنامہ ’شریعت‘ کہتا ہے اس میں تو ان تیاریوں کی تفصیلات بھی دی جارہی ہیں کہ آزادی کے بعد امارت اسلامیہ کی ترجیحات کیا ہوں گی۔ ان کے موجودہ سربراہ کا کہنا ہے کہ ایک خالص اسلامی نظام کے سائے تلے ملک کی تعمیر نَو اور ترقی کے فوری اقدامات کیے جائیں۔عالمی سرمایہ کاری کے لئے ماحول سازگار کیا جائے تاکہ ہماری معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہوجائے۔۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بھی یہ متفقہ پیش گوئی ہے کہ امریکی فوج کے جاتے ہی چھ ماہ کے اندر افغان حکومت زمیں بوس ہوجائے گی۔ پر میرے خیال میں تو چھ ماہ بھی نہیں لگیں گے بلکہ چند دن اور چند ہفتوں میں ہی اشرف غنی کی حکومت گر جائے گی ۔ کیونکہ افغان نیشنل آرمی کے فوجی بڑی تعداد میں منحرف ہورہے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ امریکہ بھی اس کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔ بہت سے افغان جو امریکی فوج اور انتظامیہ کی مدد کررہے تھے، ان سب کو تاجکستان میں پناہ دلوائی جارہی ہے۔ وہاں سے وہ امریکہ پہنچتے رہیں گے۔ طالبان کی اپنی اطلاع یہ ہے کہ ہر ماہ ایک ہزار سے پندرہ سو لوگ دشمن کی صفوں سے نکل کر ان میں شامل ہورہے ہیں۔ مجھ تو نظر آرہا ہے کہ 72سالہ اشرف غنی، 60سالہ عبدﷲ عبدﷲ اور 63 سالہ کرزئی یہ تو سب امریکہ میں پناہ گزیں ہوں گے۔ جبکہ مستقبل کی قیادت ملا محمد عمر کے صاحبزادے 30 سالہ ملا محمد یعقوب کے ہاتھوں میں جاتی دکھائی دے رہی ہے۔

۔ کیونکہ آج بیس سالہ جنگ کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر صرف اور صرف ایک ہی قوت تھی اور ہے ۔۔۔۔جسے ’’طالبان‘‘ کہتے ہیں۔

Shares: