تمباکو نوشی کی روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے -قدیم دور میں اس کو حقے کی شکل میں یا پھر تمباکو کو پتوں میں لپیٹ کر بیڑی کی شکل میں استعمال کیا جاتا تھا آہستہ آہستہ اس میں جدت آتی گئی اور موجودہ شکل سگریٹ اورای سگریٹ کی شکل میں موجود ہیں اس ای سگریٹ نوجوانوں میں بے حد مقبول ہو رہا ہے جبکہ برطانیہ اور امریکہ میں اس پر پابندی لگانے کے حوالے سے قوانین بنائے جا رہے ہیں جبکہ برطانیہ میں اس حوالے سے باقاعدہ قانون موجود ہے کہ نکوٹین کی مقدار کتنی رکھنی چاہیے-دنیا میں تمباکو کا عالمی دن 31 مئی کو منایا جاتا ہے جس دن تمباکو نوشی کے اثرات پر اور اس کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی پھیلائی جاتی ہے تمباکو نوشی کے انسانی صحت پر بہت زیادہ مضر اثرات رونما ہوتے ہیں ہیں جن میں پھیپھڑوں کا متاثر ہونا ، سانس کے مسائل ، بلڈ پریشر ، سرطان ،دانتوں کا زرد اور کمزور ہونا اور گینگرین شامل ہیں گینگرین ایک سنگین طبی حالت ہے جس میں بعض اوقات نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ جان بچانے کے لیے صرف ٹانگ کاٹنے کا آپشن ہی موجود ہوتا ہے اس لیے بچپن میں تمباکو نوشی سے بچ کر ہم گینگرین سے بھی بچ سکتے ہیں-برطانیہ میں ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تمباکو میں سات ہزار کے قریب کیمیکلز ہوتے ہیں جن میں سے ستر کے قریب کینسر کا سبب بنتے ہیں جب ہم سانس لیتے ہیں تو یہ پھیپھڑوں کے ذریعے خون میں شامل ہو جاتے ہیں اور پھر وہاں سے جسم کے دوسرے حصوں تک پہنچ جاتے ہیں اس وقت دنیا میں بیس فیصد بالغ افراد سگریٹ نوشی کی عادی ہیں جو کہ آنے والے سالوں میں کمی کی توقع کی جا رہی ہے محکمہ صحت کی جانب سے صرف سگریٹ کی ڈبیوں پر اتنا لکھ کر ذمہ داری ادا کی جا رہی ہے کہ خبردار ! تمباکو نوشی منہ کے کینسر کا سبب بنتی ہے اور تمباکو نوشی گینگرین کا سبب بنتی ہے اس کے علاوہ کوئی عملی اقدامات نہیں کیے جا رہے اس وقت سکول اور کالجوں میں سگریٹ کی فروخت سر عام ہو رہی ہے اور اس حوالے سے کوئی پوچھنے والا نہیں جبکہ سگریٹ کو تمام نشوں کی جڑ تصور کیا جاتا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے کوئی خاطرخواہ اقدامات بھی نہیں کیے جا رہے اور اس کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے-ترقی یافتہ ممالک میں اس کو بطور لت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کے علاج کے لیے حکومت کی طرف سے بھر پور مدد بھی کی جاتی ہے-اس وقت سگریٹ نوشی کی عادت کو ترک کرنے کے لیے تین طریقے مقبول ہیں جن میں سکن پیچز ، نکوٹین چیونگم اور انحیلر شامل ہیں سکن پیچز میں جلد پر ایک خاص قسم کے پیچز لگائے جاتے ہیں جن میں نکوٹین شامل ہوتی ہے اور اس طرح نکوٹین کی مقدار پوری کی جاتی ہے جبکہ چیونگم میں بھی نکوٹین شامل ہوتی ہے جو جسم میں جا کر حل ہو جاتی ہے اس کے بعد انحیلر کے ذریعے بھی جسم میں نکوٹین کی مقدار پوری کی جاتی ہے اس طرح ترقی یافتہ ممالک کوشش کر رہے ہیں کہ اس لت کو کسی طرح ختم کیا جا سکے -زیادہ تر لوگ شروع شروع میں اسے فیشن کے طور پر استعمال کرتے ہیں مگر آہستہ آہستہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں اس عادت کو ترک کرنا بھی زیادہ مشکل نہیں مگر کمزور قوت ارادی کے حامل لوگوں کے لیے اسے ترک کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے -اس وقت سگریٹ نوشی کے حوالے سے پاکستان میں قوانین موجود ہیں جیسا کہ ہسپتال کی حدود میں ، پبلک مقامات پر ، پبلک ٹرانسپورٹ پر اور تعلیمی اداروں کی حدود میں سگریٹ نوشی پر پابندی ہے مگر ان قوانین پر ہم نہ عمل کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی عمل کروانے کے لیے تیار ہیں ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر باقاعدہ سزا اور جرمانے ہیں اگر ان قانین پر عمل درآمد کرتے ہوتے ہوئے چند لوگوں کو سزا اور جرمانے ہوں تو یقیناً اس میں کافی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے-
ٹویٹر-mohsensays@