یہ بھرا شہر بھی تنہا نظر آتا ہے مجھے
کوئی تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے
یہ بھرا شہر بھی تنہا نظر آتا ہے مجھے
نور جہاں ثروت ،اردو صحافت کی خاتون اول
28 نومبر 1949: یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان کی نامور شاعرہ اور صحافی نورجہاں ثروت 28 نومبر 1949ء کو دہلی میں پیدا ہوئیں انہوں نے دہلی کالج سے گریجویشن کیا جبکہ 1971 میں دہلی یونیورسٹی سے ایم اے کیا ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ جواہر لال یونیورسٹی دہلی میں لیکچرر مقرر ہوئیں اس کے بعد ڈاکٹر ذاکر حسین کالج میں بھی تعینات ہوئیں۔ بعد ازاں صحافت سے دلچسپی کے باعث شعبہ صحافت سے وابستہ ہو گئیں۔ ان کے صحافتی کیریئر کا آغاز 1986 ء میں روزنامہ قومی اخبار سے رپورٹر کی حیثیت سے ہوا انہیں کسی بھی اردو اخبار کی پہلی خاتون رپورٹر کا اعزاز حاصل ہوا جبکہ 1988 میں وہ روزنامہ انقلاب دہلی کی ریزیڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئیں جو کہ اردو صحافت میں پہلی خاتون ایڈیٹر کا منفرد اعزاز ہے ۔ اور اسی لیے انہیں اردو صحافت کی ’خاتون اول‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انھیں کئی اہم اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں لالہ جگت نرائن صحافت ایوارڈ (1985ء)‘ راجدھانی سوتنتر لیکھک ایوارڈ (1986ء)‘ نشانِ اردو برائے ادبی خدمات (1989ء)‘ نئی آواز برائے صحافت ایوارڈ (1994ء)‘ میر تقی میر ایوارڈ (1995ء)‘ انٹر نیشنل ایسوسی ایشن آف فار ایجوکیشن فار ورلڈ برائے صحافت (1999ء)‘ قومی تحفظ و بیداری ایشین اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن ایوارڈ (2000ء)‘ میڈیا انٹر نیشنل ایوارڈ (2002ء) اور اردو اکادمی دہلی ایوارڈ (2010ء) شامل ہیں۔ جبکہ 2009 میں انہیں 50 ہزار روپے پر مشتمل بہترین شاعرہ کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ نور جہاں دہلی کی ٹکسالی اردو بولتی تھیں ۔ انہوں نے شادی نہیں کی ۔ 7 اپریل 2010 میں دہلی کی ایک نواحی بستی نوین شاہدرہ میں تنہائی کی حالت میں ان کا انتقال ہوا۔ 1995 میں ان کا شعری مجموعہ ” بے نام شجر” کے نام سے شائع ہوا۔ وہ ایک منفرد کالم نگار بھی تھیں جن کے کالم کی سرخی کسی شعری مصرع پر مبنی ہوتی تھی ۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے
یہ بھرا شہر بھی تنہا نظر آتا ہے مجھے
جانے کس موڑ پہ کھو جائے اندھیرے میں کہیں
وہ تو خود سایہ ہے جو راہ دکھاتا ہے مجھے
اس کی پلکوں سے ڈھلک جاؤں نہ آنسو بن کر
خواب کی طرح جو آنکھوں میں سجاتا ہے مجھے
عکس تا عکس بدل سکتی ہوں چہرہ میں بھی
میرا ماضی مگر آئینہ دکھاتا ہے مجھے
وہ بھی پہچان نہ پایا مجھے اپنوں کی طرح
پھول بھی کہتا ہے پتھر بھی بتاتا ہے مجھے
اجنبی لگنے لگا ہے مجھے گھر کا آنگن
کیا کوئی شہر نگاراں سے بلاتا ہے مجھے
کسی رت میں بھی مری آس نہ ٹوٹی ثروتؔ
ہر نیا جھونکا خلاؤں میں اڑاتا ہے مجھے
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر کوئی اپنی وفا کا واسطہ دینے لگا
دور سے آواز مجھ کو حادثہ دینے لگا
طے کرو اپنا سفر تنہائیوں کی چھاؤں میں
بھیڑ میں کوئی تمہیں کیوں راستہ دینے لگا
راہزن ہی راہ کے پتھر اٹھا کر لے گئے
اب تو منزل کا پتا خود قافلہ دینے لگا
غربتوں کی آنچ میں جلنے سے کچھ حاصل نہ تھا
کیسے کیسے لطف دیکھو فاصلہ دینے لگا
شہر نا پرساں میں اے ثروتؔ سبھی قاضی بنے
یعنی ہر نافہم اپنا فیصلہ دینے لگا
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو کہنے کو ہم عدو بھی نہیں
ہاں مگر اس سے گفتگو بھی نہیں
وہ تو خوابوں کا شاہزادہ تھا
اب مگر اس کی جستجو بھی نہیں
وہ جو اک آئینہ سا لگتا ہے
سچ تو یہ ہے کہ روبرو بھی نہیں
ایک مدت میں یہ ہوا معلوم
میں وہاں ہوں جہاں کہ تو بھی نہیں
ایک بار اس سے مل تو لو ثروتؔ
ہے مگر اتنا تند خو بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر بھر دیکھا ہوا وہ آرزو کا خواب تھا
کہ آسودہ ہوئی ہوں اپنے ہی انکار سے