کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان کا باعث ہوتی ہے۔ جہاں طاقت کا جاٸز استعمال معاشرے میں امن و سکوں اور عدل و انصاف کی فضا قاٸم کرتا وہیں طاقت کا ناجاٸز استعمال معاشرے کی بنیادوں کو کھوکلا کر دیتا اور معاشے کو تباہی ی طرف دھکیل دیتا اور بہت سی سماجی اور معاشرتی براٸیوں کا باعث بنتا۔ اگر طاقت کا نشہ سر چڑھ جاۓ تو انسان حیوان بن جاتا بے جا ظلم اور زیادتی حد سے بڑھنے لگتی اور یوں ظلم اور نا انصافی کا آغاز ہوتا اور اس طرح آمریت جنم لیتی جس میں تمام تر فیصلے ایک ہی شخص کرتا کسی دوسرے کو آزادی راۓ کا حق حاصل نہیں ہوتا
اور باقی تمام لوگ اس کے تابع ہوتے اس کے ظلم اور طاقت سے ڈر کر کسی کو بھی اس سے سوال کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں جب کسی کو اقتدار ملتا ہے تو اقتدار پر قابض ہوتے ہی وہ خود کو خدا تصور کرنے لگتا وہ یہ بھول جاتا کہ اس نے عوام سے کیا کیا وعدے کیے تھے وہ صرف اپنی طاقت کے نشے میں دھت ہو جاتا نہ صرف اپنے فراٸض اور ذمہداریاں بھول جاتا بلکہ اخلاقیات کو بھی بالاۓ تک رکھ دیتا
: طاقت کے غرور میں ڈوبا ہوا شخص کرپشن اوربدعنوانی اور دیگر جراٸم بڑے فخر سے سرانجام دیتا جیسے یہ اس کا حق ہو
: اگر کوٸی وڈیرا ہے تو اپنے ملازموں پہ اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرتا ہے ۔ غرض جس کے پاس بھی کوٸی منصب یا مقام آ جاۓ تو وہ دوسروں کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے ۔ یہ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں طاقتور کو سراہا جاتا چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو اس کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا جرم کہلاتا ہے اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونے سے ڈرایا جاتا دھمکایا جاتا ہے
طاقت کی بنیاد پر انصاف بیچ دیا جاتا اور مظلوم خاموشی سے برداشت کرتا۔ اسے اپنے حق کی خاطر آواز اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی اور مظلوم کی دادرسی کرنا طاقتور کی توہین سمجھی جاتی۔طاقت کے اس معیار نے ہمارے معاشرے کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ابھ بھی پہنچایا جا را رہا ہے۔
تکبر کا حق صرف اللہ تعالی کا ہے ہم جیسے خاک کے پتلوں کو نہیں ہمارے پاس جو بھی ہے یہ سب اللہ کی عطا اور کرم ہے ہمارا کمال نہیں اس لیے اس عارضی طاقت کے نشے سے باہر نکلیں کیونکہ جو دینے پر قادر ہے وہ لینے پر بھی قادر ہے ۔ ایک دوسرے کو انسان سمجھ کر ایک دوسرے کے ساتھ احسن سلوک کریں
اللہ کو عاجزی پسند ہے نہ کہ تکبر اور اکڑ۔ ہم مٹی کے بندے ہیں اور ایک دن مٹی ہی ہو جاٸیں گے اس لیے عاجزی اختیار کریں کسی کو حقیر یا کمتر نہ سمجھنا محض اس لیے کہ آپ کے پاس منصب یا دولت کی طاقت ہے۔
ہم انسان جو کہ خاک کے پتلے ہیں اور ایک دن خاک ہو جاٸیں گے۔ لیکن پھر پتہ نہیں انسان میں اکڑ اور غرور کس چیز کا ہے۔ نہ تو انسان اپنی مرضی سے اس دنیا میں آیا نہ ہی ہمیشہ یہاں رہے گا مختصر یہ کہ نہ زندگی کا اعتبار اور نہ موت کا خبر اور اس دنیا میں آنے پہ بھی دوسرے غسل دیتے اور جانے پہ بھی دوسروں نے غسل دینا مگر پھر بھی طاقت کا یہ خطرناک نشہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا کیونکہ ہم نے خود طاقتور کو اسکی طاقت کے ناجاٸز استعمال کی شے دی اس کے ظلم پر خاموش رہ کر اور مظلوم کے ساتھ نہ کھڑے ہو کر۔ ہمارے اس دنیا میں آنے اور یہاں سے جانے میں صرف ایک ازان اور نماز کا فاصلہ ہے۔
پھر پتہ نہیں انسان کس طاقت پہ تکبر کر کے انسانی اور اخلاقی اقدار سے خود کو گرا دیتا ہے?

@b786_s

Shares: