تربیتِ اولاد کے چند رہنما اصول تحریر : باچاخانزادہ
![](https://baaghitv.com/wp-content/uploads/2021/08/images-2021-08-06T214513.530.jpeg)
بچوں کی تربیت اس دور کا سب سے اہم چیلنج بن چکا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تربیتِ اولاد ایک نہایت صبر آزما اور جاں گسل کام ہے مگر اس کے نتائج و ثمرات کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کام مشکل نہیں رہتا۔ بڑے مقاصد کے لیے بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ بچوں کو معاشرے کا ایک کارآمد فرد اور دنیا و آخرت کا بہترین ذخیرہ بنانے سے بڑا مقصد اور کیا ہوسکتا ہے! سو اس لحاظ سے اس راہ کی مشقتیں پھر بھی کم ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی برحق ہے کہ نیک کام کے ہر مرحلے پر خدا کی مدد و نصرت شامل حال رہتی ہے جس سے ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ ذیل میں چند ایسے اصول لکھ رہے ہیں جو تربیت کے لیے نہایت موزوں ثابت ہوں گے۔ تجربہ اس بات کا شاہد ہے۔
اولا تو یہ ذہن میں رکھیں کہ بچے کی مثال ایک سادہ لوح کی ہے۔ وہ اپنے بڑوں کو دیکھ دیکھ کر اس لوح میں رنگ بھرتا ہے۔ جیسا معاملہ اور برتاؤ اس کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ اس کی زندگی کے ضابطے بنتے جاتے ہیں۔ اس لئے والدین کو خصوصاً بچوں کے حوالے سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
1- غلط کی حوصلہ شکنی
عموماً بچے کبھی کبھار غلطیاں کردیتے ہیں۔ کبھی تو اوروں کی دیکھا دیکھی میں اور کبھی عدمِ توجہی کے باعث۔ بچہ کوئی غلطی کرے تو اس پر پیار سے باز پرس ضرور کرنی چاہیے، تاکہ اسے احساس ہو کہ یہ غلطی دوبارہ نہیں کرنی ہے اور یہ کہ میرے سے سوال جواب کرنے والے لوگ موجود ہیں جو میرے ہر عمل کی نگرانی کر رتے ہیں۔ عام طور پر والدین محبت کے دھوکہ میں آکر ایسے مواقع یہ کہتے ہوئے نظر انداز کردیتے ہیں کہ "ابھی توبچہ ہے۔ بعد میں سیکھ جائے گا”۔ یاد رہے یہ ایک تباہ کن غلطی ہوتی ہے جو بچے کی تربیت میں بہت منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ بعد میں کبھی نہیں سیکھا جاتا، بچپن کا سیکھا پچپن تک ساتھ چلتا ہے۔ پکڑ نہ کرنے کے باعث بچہ اپنی غلطی کی اصلاح کے بجائے اس پر جری ہوجاتا ہے۔ یوں غلطی در غلطی کی ایک لڑی بنتی چلی جاتی ہے۔
2- اچھائی کی تعریف
بچے عموماً پاک طینت اور صاف دل ہوتے ہیں۔ برائیوں کی طرح ان کی اچھائیوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کوئی اچھی بات کہیں، اچھا کام کریں تو تعریف ضرور کرنی چاہیے۔ اپنی وسعت کے بقدر حوصلہ افزائی بھی کریں تاکہ اسے معلوم ہو کہ اچھائیوں کی قدر کی جاتی ہے۔ آپ کا یہ عمل انہیں مزید اچھائیوں کی شہہ دے گا۔ اس میں ایک بات کا دھیان رہنا چاہیے کہ تعریف اور حوصلہ افزائی کے ساتھ مزید اچھائیوں کی بھی ترغیب دی جائے۔ اسی ایک اچھائی پر اکتفاء نہیں کرنا چاہیے۔
3- ضد کبھی پوری نہ کریں
بچے ضدی کیوں بنتے ہیں؟ کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ضد سے بات مانی جاتی ہے۔ جب آپ ان کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالیں گے تو وہ سمجھ بیٹھے گا کہ اپنی بات ایسے منوائی جاتی ہے۔ اس لیے بچہ جب کبھی ضد کرے دل پر پتھر رکھ کر اسے پورا کرنے سے باز رہیں۔ وہ روئے دھوئے جو کرے، آپ نے ہار نہیں ماننی۔ یہی بچے کے ساتھ خیر خواہی اور محبت کا تقاضا ہے۔ ایک مرتبہ ضد پوری نہ ہوگی تو پھر کبھی ضد پنے کی شکایت نہیں ہوگی۔
4- ذمہ داری سونپیں
عمر کے لحاظ سے بچوں کو ذمہ داریاں بھی سونپیں۔ چھوٹا ہے تو گھر میں کوئی گلاس اٹھوا دیں۔ اپنے کھلونے سمیٹنے کی ذمہ داری دیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس سے بچے میں احساس ذمہ داری پیدا ہوگی۔ وہ شروع سے ہی ایک ذمہ دار حیثیت سے پروان چڑھنا شروع ہوجایے گا۔ جن والدین کو اپنے بچوں کے بھولے پن اور سادگی کی شکایت رہتی ہے وہ یہ کام کر کے مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔
5- گپ شپ کریں، رائے لیں
بچوں کے ساتھ میٹنگز رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ معمول کی نشستوں کے علاوہ خصوصی نشست رکھنے کا بھی اہتمام کریں جس کے لئے انہیں پہلے سے بتائیں کہ ایک خاص بات کرنی ہے۔ گفتگو سنجیدہ ہونی چاہیے جس میں بچوں کی رائے لی جائے۔ ان کی آراء پر مثبت تبصرے بھی ساتھ کریں۔ کہیں نقص ہو تو وہ بھی بتائیں۔ اس سے بچوں میں فیصلہ سازی کی قوت پیدا ہوگی۔ ان کا دماغ معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔
6- لکھوائیے
ایک صاحب نے کہا میں نے اپنے بچوں کو بہترین تحریر نویسی سکھانے کے لئے یہ اصول اپنایا کہ جو معاملہ ہو میں ان سے لکھنے کا کہتا۔ یوں وہ لکھ لکھ کر بہترین لکھاری بن گئے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بھی گاہے بگاہے بچوں سے لکھوائیں۔ کہیں گھومنے گئے تو اس پر کچھ لکھوائیں۔ اسکول پر لکھوائیں۔ والدین، اساتذہ، بہن بھائی، پسند نا پسند، ڈھیر سارے موضوعات ہیں جن پر بچے بآسانی لکھ سکتے ہیں۔ لکھنا سیکھیں گے تو سمجھنا بھی سیکھیں گے۔ ایک لکھای قوم کا ترجمان ہوتا ہے۔ لکھنا بھی آنا چاہیے۔
7- خود مثال بنیں
بچوں کو جیسا بنانا چاہتے ہیں خود بھی ویسا بننے کی کوشش کریں۔ جو بات انہیں کہیں خود بھی عمل کریں۔ یاد رکھیں! خود عمل کیے بغیر صرف آرڈر جاری کرنا اپنی محنت ضائع کرنے والی بات ہے۔ بچے سنتے کم دیکھتے زیادہ ہیں۔ جیسا ماحول ویسا کردار ہوگا۔ انہیں جیسا دکھایا جائے گا ویسے ان کی شخصیت کی تعمیر ہوگی۔
درج بالا چند اصول تربیت کے حوالے سے تجربات کا نچوڑ ہیں۔ ان پر عمل کرنے سے بچے آپ کے لئے دنیا میں نیک نامی اور افتخار کا باعث بنیں گے۔ بچے والدین کی سب سے قیمتی دولت ہیں۔ ان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ دھیان رہے کہیں یہ دولت زندگی کی مصروفیات کی نذر ہو کر ضائع نہ ہو جائے۔ زندگی جتنی بھی مصروف ہو، بچوں کے لیے وقت ضرور نکالیں۔
@bachakhanzada5