حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس میں حیا نہیں اس میں ایمان نہیں۔
حیا کیا ہے کوئی بھی گناہ یا نا پسندیدہ کام یا بات کرنے کے خیال سے قبل دل میں جو شرم اور بے چینی پیدا ہوتی ہے اسے حیا کہتے ہیں۔ اور حیا ہی گناہوں اور برائیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ جس شخص میں جتنی زیادہ حیا ہوگی۔ اتنا ہی وہ اپنے رب سے تعلق میں مضبوط ہو گا اور گناہوں سے محفوظ رہے گا اور ہمارے پیارے نبی خاتم النبیںن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حیا کی صفت نمایاں تھی ہمیں آج سمجھنے کی ضرورت ہے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن ہی سے اتنے احساس پسند تھے کہ آپ ﷺ کی ایک ملازمہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کبھی گھر میں کھانا مانگ کر نہ کھاتے۔ جو بھی ملتا کھا لیتے اس پر اعتراض نہ کرتے نہ ہی کھانے میں نقص نکالتے تھے یہ درس ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
بے حیائی کا تعلق گناہ کا زکر کرنے سے بھی ہے ہمارے پیارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی خطا کار اپنے گناہ بتا کر معافی بھی مانگتا تو آپ ﷺ شرم سے گردن جھکا لیتے تھے۔ آپﷺ نے گناہ میں گواہ بنانے سے سخت منع فرمایا.

اچھے اخلاق کی بنیاد ادب پر ہوتی ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلی ترین اخلاق میں بھرپور ادب نظر آتا ہے۔ حالانکہ آپ ﷺ نے اپنے والد محترم کو نہیں دیکھا تھا اور والدہ کے ساتھ بھی بچپن کا بہت کم حصہ گزار سکے مگر آپ ﷺ نے والدین کے آداب و احترام پر بڑا زور دیا ہے۔ اپنی رضاعی حضرت والدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بہت احترام فرماتے۔ میری ماں میری ماں کہہ کر کھڑے ہو جاتے اور اپنی چادر ان کے لیے بچھا دیتے ۔بوڑھوں بزرگوں کا احترام فرماتے ہمیں بھی یہ سمجھنا چاہیے اور اپنے نبیﷺ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔
مشہور کہاوت ہے کہ بے ادب بے مراد با ادب با مراد۔
ادب ایک ایسی خوبی ہے جو خدمت اور احساس جیسی اعلی عادات بھی سکھاتی ہے۔کیونکہ جو بے ادب ہو گا وہ بھلا کسی کی کیا احساس کرے گا؟
خدمت خلق اللہ تعالٰی کا یہ پسندیدہ عمل ہے۔ جس ستمے تکبر کا عنصر ختم ہوتا اور احساس کو فروغ ملتا ہے اور ہمارے پیارے نبی خاتم النبیںن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ صفت نمایاں تھی۔ آپ ﷺ اپنے پرائے مسلم اور کافر غرض ہر کسی کا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی رب العالمین کی رضا کے لیے کر دیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ محتاجوں بیواوں یتیموں اور مسکینوں کی خدمت کے لیے ہمیشہ تیار رہتے اور ترغیب دیتے تھے۔ آج اس عمل کی اشد ضرورت ہے.

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے. پاکیزگی کے عمل پر زور دیا اور فرمایا اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ اس سے مراد من کی خوبصورتی ہے اعمال کی پاکیزگی کی ناکہ رنگت کی. کیونکہ اللہ کریم پسندیدہ بندوں میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل ہیں جس سے رنگ کے امتیاز کی نفی کی گئی ہے. آپﷺ نے خاص طور پر جگہ جگہ تھوکنے کو سخت نا پسند فرمایا ہے۔
ایک بار دیوار پر تھوک کے دھبوں کو کھرج کھرج کر خود صاف فرمایا۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نماز کی امامت کر رہے تھے ۔انہوں نے حالت نماز میں تھوک دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ منع فرما دیا اور کہا شخص نماز نہ پڑھائے۔ پوچھنے پر حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے۔ دوسری جگہ فرمایا کہ پیشاب کے چھینٹوں سے بچو کہ قبر میں عام طور پر اسی گناہ کے باعث عذاب الہی ہوتا ہے۔ کتنی خوبصورتی سے امت کو پاکیزگی کا درس دیا گیا ہے آپ ﷺ کے بے شماد مزید فرامین موجود ہیں. جن سے مقصد زندگی اور اصول زندگی کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے

اللہ کریم ہمیں صحیح معنوں میں اصول زندگی سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

@EngrMuddsairH

Shares: