تصویر کے دو رخ تحریر: از قلم محمد وقاص شریف

ہر تصویر کے دورخ ہوتے ہیں کبھی کبھی دوسرا رخ بھی زیر بحث لایا جانا چاہیے ۔ دنیا میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو نایاب ہیں اور بہت کم ملکوں کے پاس ہیں لیکن ایک ایسی چیز ہے جو نہ صرف یہ کہ دنیا کے ہر ملک کے ہر ادارے کے پاس ہیں بلکہ بہت زیادہ تعداد میں دستیاب بھی ہیں یہ ہیں ’’کالی بھیڑیں‘‘دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہوجس کے پاس یہ دولت نہ ہو۔اداروں کی تفصیل میں چلے جائیں تو بات بہت آگے نکل جائے گی،ایک ہم بھی ہیں اور کچھ کالی بھیڑیں بھی ہیں، ابھی صرف کا لی وردی والی کالی بھیڑوں کو دیکھ لیتے ہیں کیونکہ کالی بھیڑیں ویسے تو دنیا بھر میں بدنام ہیں لیکن پاکستان میں ان کو بدنامی کا شرف کچھ زیادہ ہی حاصل ہے۔اور اگر نظر عام سے دیکھا جائے تو یہ بدنامی غلط بھی نہیں ہے کیونکہ پولیس کے ستائے لوگوں کی تعداد خطرناک حد تک زیادہ ہے۔پولیس کی کالی بھیڑیں نسبتاً کم لوگوں کو نشانہ بناتی ہیں لیکن ان کی بدنامی وسیع پیمانے پر اس لیے ہو جاتی ہے کیونکہ اس کم، کے پیچھے ذلیل وخوار ہونے والے زیادہ ہوتے ہیں۔کسی بھی جگہ کسی بھی مقام پر پولیس کی بات ہو رہی ہو تو گلے شکوے اور گالی گلوچ کا سماں بندھا ہوتا ہے۔کوئی بھی شخص پولیس کو با عزت مقام دینے کیلئے تیار نہیں۔کچھ لوگ اپنے اوپر بیتی پر اور کچھ دوسروں پر بیتی پر پولیس کو کوس رہے ہوتے ہیں۔پولیس پر شکوے چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھ جائیں لیکن قصور وار چند کالی بھیڑیں ہی ٹھہرائیں گی۔پولیس میں دیانتدار وں اور مخلص اوردینداروں کی کبھی کمی نہیں رہتی تبھی تو یہ ادارہ جیسے تیسے چل رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے پولیس کا دوسرا رخ کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی اور شاید ایک عام آدمی اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔پولیس مین کا دوسرا رخ عام آدمی جان لے تو ممکن ہے پولیس کے خلاف اس کی نفرت میں کچھ کمی آجائے۔کم تنخواہیں۔24گھنٹے ڈیوٹی سیاسی پریشر،محکمانہ سہولیات کا فقدان،پولیس مقابلے،خودکش حملوں کا سامنہ،مجرمان کی دھمکیاں،انگلی کے اشارے پر تبادلے،دن کی تھکاوٹ، رات کے جگراتے،عید کا تصور نہیں،شب برات سے واقفیت نہیں،اپنوں کے جنازے پڑھ نہیں سکتے،ولیموں کا انہیں علم نہیں،اپنوں سے دور ہیں،بچے شفقت پدری سے محروم ہیں تو بیوی بیوہ بیوہ سی لگتی ہے۔قانون کی خلاف ورزی کر بیٹھیں تو وہ حرکت میں آجاتا ہے۔نا جائز مدد نہ کریں تو مجرم حرکت میں آجاتا ہے۔حق دار کو حق دے دیں تو ظالم دشمن بن جاتا ہے۔ظالم کو پناہ دیں تو مظلوم کی آہیں آڑے آجاتی ہیں۔رات تھانے میں گذرتی ہے تود ن عدالت میں بسر ہوجاتا ہے اپنے دفاع میں گولی چلائیں تومجرم کسی کی گولی کا شکار ہوجائیں تو کوئی آہ و بقا نہیں۔چند سلامیاں ایک عدد چیک اور بات ختم۔سلامیاں اور چیک پیٹ کا دوزخ تو بھر سکتے ہیں لیکن جس یتیم سے باپ اور بیوی سے شوہر جیسی جنت چھن جائے اس خاندان کے بارے میں کسی نے کبھی سوچا۔پولیس کے بارے میں سب کو سب کچھ کہنے کا حق ہے۔لیکن ہر تصویر کے دو۔رخ ہوتے ہیں۔کبھی کبھی دوسرا رخ بھی زیر بحث لایا جانا چاہیے
‎@joinwsharif7

Comments are closed.