شاہراہ قراقرم جسے شاہراہ ریشم بھی کہا جاتا ہے اسی روٹ کو اب مزید جدت لا کے سی پیک قرار دیا گیا ہے اور چین کے ساتھ مکمل زمینی تجارت کا انحصار اس شاہراہ پر ہے جس سے مملکت خداداد پاکستان میں معاشی انقلاب برپا ہوگا گلگت بلتستان کے عوام کے لیے یہ شاہراہ لاٸف لاٸن کی حیثیت رکھتی ہے گلگت بلتستان کے عوام کا مکمل انحصار ملک کے باقی حصوں سے زمینی رابطے و تجارت کے لیے اسی روٹ پر منحصر ہےاگرچہ گلگت بلتستان کے لیے متبادل راستوں پر شاہراہیں تعمیر کرنے کےلیے مقتدر حلقوں میں غور ہورہا ہے اور مسقبل میں اس خطے کو تین متبادل راستوں کے زریعے ملک کے باقی حصوں سے منسلک کیا جاۓ گا جن میں سر فہرست گلگت چترال روٹ ، شونٹر پاس کے زریعے آزاد کشمیر شاہراہ اور بابوسر پاس تا کاغان ناران شاہراہ کو آل ویدر بنانا شامل ہے لیکن سردست گلگت بلتستان کے عوام ملک کے باقی حصوں سے آمدورفت، تجارت اور دیگر معاملات کے لیےمکمل اس روٹ پر انحصار کرتے ہیں شاہراہ قراقرم کو سنگلاخ چٹانوں کے دامن کو چیر کر تعمیر کیاگیا ہے اسی وجہ سے اس شاہراہ کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے اس شاہراہ کا زیادہ تر حصہ سنگلاخ پہاڑوں اور خشک پہاڑی سلسلوں سے ہوکر گزرتا ہے برساتی موسم میں لینڈ سلاٸڈنگ ،مٹی کے تودے اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے روڈ کی بندش کی وجہ سے مسافر اور خطے کے باسی شدید مشکلات سے دوچار ہو جاتے ہیں عام مسافر ،سیاح اور تجارتی سرگرمياں مفلوج ہوکر رہ جاتی ہیں اگرخدانخواستہ یہ بندش طویل ہوجاٸے تو ان علاقوں میں بنیادی اشیاٸے ضروریہ کا بحران سر اٹھانے لگتا ہے شاہراہ قراقرم پر چلاس شہر سے تقریبا پچاس ساٹھ کلو میٹر آگے تتہ پانی کے مقام (اس مقام پر گرم پانی کے چشمے ہیں )پر شاہراہ قراقرم کا تقر یبا دو کلوميٹر کاحصہ عرصہ دراز سے اس خطے کے باسیوں کے لیے درد سر اور موت کا کنواں بنا ہوا ہے اب تک اس سیکشن میں لینڈ سلاٸیڈنگ کیوجہ سے سینکڑوں حادثات رونما ہوئے ہیں اور درجنوں قیمتی جانیں اس بیانک سیکشن کی نذر ہوچکی ہیں معمولی بارشوں میں بھی اس سیکشن کا بلاک ہونا معمول ہے حالیہ بارشوں میں بھی اس سیکشن پر حادثات رونما ہوے اور دو قیمتی جانیں لینڈ سلاٸیڈنگ کے باعث چلی گٸی اور یہ سیکشن آمدورفت کے لیے بلاک رہا جس سے ہزاروں مسافر عید کے ایام میں پھنسے رہے اور اب بھی اس سیکشن کی بحالی کے لیے کام جاری ہے گلگت بلتستان کے عوام کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ اس سیکشن کے متبادل دریا کے دوسری جانب شاہراہ منتقل کی جاۓ تو حادثات اور روڈ بلاک کے مسائل سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے اور اس سیکشن کے مرمت اور بحالی پر اٹھنے والے آٸے روز کے اخراجات بھی بچاٸے جاسکتے ہیں دریا کے دوسری جانب جانب جگہ مناسب اور پہاڑ سخت ہیں جبکہ تتہ پانی والا سیکشن گرم چشموں کے بدولت نرم مٹی والے پہاڑی ٹیلوں پر مبنی ہےجو ہمہ وقت خطرے کی علامت بنے رہتے ہیں گلگت بلتستان کے سایسی سماجی اور عام عوام کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ اس سیکش کے متبادل کے طور پر دریا کے دوسری جانب شاہراہ تعمير کرکے یہ سیکشن دوسری جانب منتقل کیاجاٸے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ مسافروں کی پریشانی بھی کم ہوسکے۔۔۔۔۔۔۔۔ Twitter Handle…….@Srufaq

Shares: