انسان کو اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس کی یہ صفت اس کے احساس کے وصف کی وجہ سے ہے. انسان کو جب سے تخلیق کیا گیا آج تک انسان اپنی زندگی کے داؤ پیچ میں مگن ہے. کبھی خوشی کبھی غمی کبھی دکھ کبھی سکھ زندگی کا حصہ رہے ہیں. کچھ انسان پر آزمائش دی جاتی تو کچھ انسان کی اپنی شامت اعمال ہوتی ہیں. یہ رب العالمین کا نظام ہے وہ اپنے بندوں کو ا ی سے صبر کی توفیق اور حالات سے لڑنے کی ہمت دیتا ہے ساتھ ہی ساتھ اس کے گناہوں کا کفارہ بھی بنتا ہے.
نبی کریم خاتم النبیںن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مومن کی آزمائش اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے. الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مومن کو جب کوئی بھی تکلیف پہنچتی ہے اس کو گناہوں کو ساتھ لے جاتی ہے.

یہ رب کریم کی شان کریمی ہے کہ ساتھ ساتھ اپنے بندوں پر نظر عنایت فرماتا ہے.ان سب چیزوں کے ساتھ انسان کو اللہ رب العزت نے اپنی عدالت بھی دے رکھی ہے. جو جب تک انصاف کے سہی ترازو کے ساتھ قائم ہوتی ہے انسان کا محاسبہ کرتی ہے کہ وہ صحیح راہ پر ہے یا غلطجب یہ بھٹک جائے اور شیطانی ترجمانی کی طرف گامزن ہو تو انسان خود کے لیے صحیح فیصلہ نہیں کر پاتا. انسان کو اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے.
رات کو جب انسان بستر پر موجود ہوتا تو دو لمحے کے لیے اپنے روز مرہ کے اعمال کا جائزہ لے تو ساری حقیقت عیاں ہو جاتی ہے. یہ اسکی پہلی منزل ہے.
اس کے بعد باری آتی ہے اس کا اعادہ کرنا کہ جو کام اچھا کیا وہ کیسے ٹھیک کیا اور جو برا کیا وہ کیوں برا ہوا. یہ عمل کی دوسری سیڑھی ہے جو انسان کو اپنی غلطی کا احساس دلانے کے لیے ہوتی ہے. اسسے اس کا من برائ سے بچنے کی ترغیب سوچنے کے قابل ہوتا ہے. یہی خاصیت اس کی بخشش کا سامان بن جانے کے لیے اس کا ساتھ دیتی ہے اور انسان کو اپنے آپ کو سدھارنے کا موقع ملتا ہے.

تیسری منزل ہے اس سے آگے توبہ
یہ وہ منزل ہے جو پچھلی دونوں منازل کا مغز ہے. کہ بندا اپنی غلطی تلاش کر چکا اسے تسلیم بھی کر چکا اب رب سے معافی مانگنا چاہتا ہے اور آئندہ اس غلطی سے بچنے کا عہد کرنا چاہتا ہے
پھر رب کریم بندے کو بخشش مانگنے کا موقع عطا کرتا ہے. بندا جب اس موقعے کو استعمال کرتا ہے تو بخش دیا جاتا ہے. کتا خوبصورت دین ہے.

اللہ کریم اپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے اسی لیے اس نے اپنے بندوں کو بخشنے کے بہانے عطا کے ہوے ہیں. کوئی پریشانی میں بخشا جاتا تو کوئی تزکیہ نفس میں. کوئی رو کہ رب کو منا لیتاتو کسی کی نیکی اتنے کامل درجے پر پسند کر لی جاتی کہ بخش دیا جاتا ہے.
انسان کی اسی میں بقا ہے اسی میں کامیابی ہے کہ وہ اپنے رب سے جڑا رہے جیسے ہی غلطی محسوس کرے فورا اللہ کریم کے حضور طائب ہو جاے. تا کہ رب سے تعلق کا ربط نا ٹوٹنے پاے
گفتگو سے یہ سب ملا کہ اپنا محاسبہ اور تزکیہ نفس کرتے رہنا چاہیے
خود پرستی پر دھیان دینے سے بہتر خود محاسبہ پر دھیان دینا چاہیے. روز رات کو سونے سے پہلے اپنے اعمال کو پرکھنا چاہیے اور. اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اچھے اور برے کی ساتھ ساتھ پہچان رکھنی چاہیے. اپنے رب سے تعلق قائم رکھنا چاہیے تاکہ انسان سیدھے راستے رہ سکے. اور رب کی رحمتوں کے حصار میں رہے

@EngrMuddsairH

Shares: