ٹیچراور سزا . تحریر : محمد وقاص شریف

0
93

نبی آ خر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنا فخر آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر نہیں کیا۔ جتنا اپنے آپ کو معلم کہنے پر کیا۔ زبان زد عام میں دیکھا جائے تو نبی کا درجہ ایک معلم سے کہیں زیادہ ہے۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ معلم ہونے اور کہلانے پر متفخر ہیں۔ ایک استاد اپنے طالب علم کو سزا دے سکتا ہے یا نہیں اس بات کا اندازہ لگانے سے پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ اسلام میں سزا کا تصور ہے یا نہیں۔ انسانی زندگی میں جس طرح جزا کا تصور ہے۔ اسی طرح سزا کا بھی تصور ہے۔ رب العزت نے انسان کو پیدا کیا اور فرمایا کہ نیکی اور بدی کا اختیار تیرے ہاتھ میں دیتا ہوں مگر یاد رکھ نیکی کی صورت میں جنت اور بدی کی صورت میں دوزخ تیرا مقدر ہو گی۔ یہ تو آخرت کی بات تھی۔ دنیا بھر میں عدالتی نظام موجود ہیں۔ پولیس اور ایجنسیز متحرک ہیں.

وہ مختلف جرائم کرنے والوں پر ہاتھ ڈالتی ہیں۔ ان کو گرفتار کرتی ہیں۔ اور ایک منظم عدالتی نظام کے ذریعے ان کو اپنے کیے کی سزا ملتی ہے۔ اسی دوران بے گناہ افراد کو باعزت رہائی بھی ملتی ہے۔ نماز کے بارے میں حکم ہے۔ کہ بچہ 7سال کا ہو جائے تو اسے پیار سے نماز پڑھنے کا کہیں نہ پڑھے تو ڈانٹے اور اگر ڈانٹ بھی کم پڑ جائے تو آ سے سزا دیں۔ یاد رہے کہ سزا سے مراد تشدد ہرگز نہیں۔ کیونکہ مقصدیت بچے کی اصلاح ہے۔ کھال اتارنا ہرگز نہیں۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ بچوں پر درندگی کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر استاد بندہ بشر ہونے کی بنیاد پر کسی بچے کو معمول سے زیادہ سزا دے بیٹھتا ہے تو آس کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے کہا جاتا ہے کہ” غلطی فطرت آ دم ہے کیا کیا جائے۔ اس کا ایک اعلی ترین اخلاقی اور مذہبی حل یہ ہے کہ اس کو ایک موقع دیا جائے کیونکہ اس نے یہ فعل ذاتی دشمنی یا رنجش کی بنیاد پر نہیں کیا ہوتا بلکہ اس کو اس بات کا صدمہ دکھ اور رنج ہوتا ہے کہ آس کی اتنی زیادہ توجہ اور محنت کے باوجود بچہ اس کے کیے کرائے پر پانی پھینک دیتا ہے اس کی توقعات کا جنازہ نکالتا ہے تو وہ مایوسی اور ذہنی تناؤ کی بنیاد پر بچے پر ہاتھ اٹھا دیتا ہے۔ جس سے بعض اوقات بچے زخمی ہو جاتے ہیں اور والدین اپنے بچوں کی تکلیف برداشت نہیں کر پاتے اور یوں ایک جھگڑے کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ پچھلے دنوں سند یلیا نوالی کے ایک نجی سکول میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ بچے پر تشدد کا معاملہ سامنے آیا جس پر ورثاء نے ٹیچر کو کوئی موقع دئیے بغیر اس پر چڑھائی کر دی۔ اور بھرے شہر میں اس کی عزت مٹی میں ملا دی۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی دوران تشدد ٹیچر کی نہ صرف ویڈیو بنائی گئی بلکہ اسے وائرل بھی کیا گیا۔ پیغمبرانہ پیشے کے حامل استاد پر جس درندگی کا مظاہرہ کیا گیا وہ باعث شرم ہے۔ اگر استاد کو ایک موقع دیا جاتا تو یقیناً اس طرح کا واقعہ کبھی بھی پیش نہ آتا لیکن ایک عالم کو جہالت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ جس سے انسانی سر شرم سے جھک گئے اس تشدد سے بچے کے زخم تو نہیں بھرے لیکن استاد کے زخم ہمیشہ کے لئے ہرے ہو گئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشاد ہے جس نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا وہ میرا آ قا اور مولا ہو گیا۔مہذب معاشرے میں انجانے میں کسی شخص کو عدالت میں بلایا جاتا ہے جب جج صاحب کو پتا چلتا ہے کہ یہ شخص جو اس وقت عدالت میں موجود ہے وہ ایک ٹیچر ہے تو وہ کرسی چھوڑ کر احتراماً کھڑا ہو جاتا ہے۔غور طلب بات یہ ہے جس بچے کو ٹیچر چھ سال سے پڑھا رہا تھا اور اس کی تعلیم و تربیت کر رہا تھا اس کے مرتبے کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔
تھوڑا کہئیے کو بہت جانئے گا۔

@joinwsharif7

Leave a reply