تحریر میں بنتی نہیں جو بات ہے دل میں

0
58

تحریر میں بنتی نہیں جو بات ہے دل میں
کیا درد ہے شعروں میں سمویا نہیں جاتا

صوفیہ بیدار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر و تعارف : آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل نام:. صوفیہ صنم
قلمی نام اور تخلص: صوفیہ بیدار
تاریخ پیدائش:25دسمبر 1964ء
جائے پیدائش:سیالکوٹ
نام والد:عبد اللہ ادیب
زبان:اردو
اصناف:شاعری
تصنیفات:
خاموشیاں
تاراج

صوفیہ بیدار صاحبہ اردو اور پنجابی کی نامور پاکستانی ادیبہ، شاعرہ، کالم نگار،صحافی اور بیوروکریٹ ہیں۔ ان کی تحریروں میں ملکی و معاشی اور معاشرتی مسائل کو بہترین پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے۔ وہ ملکی اور بیرون ملک ادبی تقاریب اور مشاعروں میں خصوصی طور پر بلائے جاتے ہیں۔ قارئین اخبارات میں چھپنے والے ان کے کالمز ہزاروں کی تعداد میں بڑے شوق اور دلچسپی کے ساتھ پڑھتے اور متاثر ہوتے ہیں ، میں بھی قارئین کی اس فہرست میں شامل ہوں۔ صوفیہ بیدار کی اردو اور پنجابی شاعری بہت عمدہ اور خوب صورت ہوتی ہے ۔ وہ ایک افسر اعلی کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض پوری دیانتداری کے ساتھ سرانجام دیتی ہیں وہ ڈائریکٹر آرٹس کونسل کے عہدے پر بھی فائز رہ چکی ہیں۔

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک درد کہن آنکھ سے دھویا نہیں جاتا
جب رنج زیادہ ہو تو رویا نہیں جاتا

مٹ جانے کی خواہش کو مٹایا نہیں کرتے
کھو دینے کے ارمان کو کھویا نہیں جاتا

جلتے ہوئے کھلیان میں اگتی نہیں فصلیں
خوابوں کو کبھی آگ میں بویا نہیں جاتا

جب حد سے گزرتے ہیں تو غم غم نہیں رہتے
اور ایسی زبوں حالی میں رویا نہیں جاتا

تحریر میں بنتی نہیں جو بات ہے دل میں
کیا درد ہے شعروں میں سمویا نہیں جاتا

سلگی ہیں مری آنکھ میں اک عمر کی نیندیں
آنگن میں لگے آگ تو سویا نہیں جاتا

یوں چھو کے در دل کو پلٹ آتا ہے واپس
اک وہم محبت کا کہ گویا نہیں جاتا

اب صوفیہؔ اس طرح سے دل پہ نہیں بنتی
اب اشکوں سے آنچل کو بھگویا نہیں جاتا

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بتوں کی آنکھ میں کیا خواب جھلملاتا ہے
رکا ہوا ہو جو منظر تو کون آتا ہے

اسی کے لمس سے زندہ نقوش ہیں میرے
وہ اپنے ہاتھ سے مورت میری بناتا ہے

وہ ظرف دیکھ کے دیتا ہے درد چاہت کے
پھر اس کے بعد محبت کو آزماتا ہے

ردائے چرخ میں ٹانکے ہیں ہجر نے تارے
یہ سوت صدیوں کی خاموشیوں نے کاتا ہے

وفا کا لکھتا ہے انجام عشق سے پہلے
پھر اس کے بعد نگر پیار کا بساتا ہے

تمھارے ہوتے ہوئے خاک ہو گئی کیسے
تمھارے ساتھ مرا کس طرح کا ناتا ہے

رکا ہوا ہے جو منظر وہ اس کا حصہ ہے
بھلا لکیر سے باہر بھی کوئی آتا ہے

Leave a reply