نہ جانے وقت نے کیوں فاصلے یہ دے دیئے ورنہ

0
91

نہ جانے وقت نے کیوں فاصلے یہ دے دیئے ورنہ
تمھی تو میرے جیسے تھے تمہیں تو میرا ہونا تھا

معروف شاعرہ لبنیٰ صفدر 25 دسمبر 1978ء پنڈی بھٹیاں میں ہوئیں ان کی تصنیفات میں کبھی الوداع نہ کہنا-2008، بارشوں کے موسم میں-2008، یہ ہجر ہے یا وصال ہے-2006، محبت آئنہ کرلو-2005، تمھیں تومیراہونا تھا-2004، خوشبو ہے وہ صندل کی شامل ہیں-

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمین چشم نم میں ہم کو تیرا خواب بونا تھا
تری ہر یاد کا موتی تو پلکوں میں پرونا تھا

ملن کے موسموں میں جانے کیوں میں بھول بیٹھی تھی
تجھے بھی شہر کی اس بھیڑ میں اے دوست کھونا تھا

فقط اپنے خیالوں سے نہ باندھو یوں مرے دلبر
کبھی دیتے رہائی مجھ کو بھی کچھ دیر سونا تھا

گرا ہے تو کئی ٹکڑوں میں وہ بکھرا پڑا ہوگا
تمہارے نم سے ہاتھوں میں جو شیشے کا کھلونا تھا

نہ جانے وقت نے کیوں فاصلے یہ دے دئے ورنہ
تمہی تو میرے جیسے تھے تمہیں تو میرا ہونا تھا

غزل
۔۔۔۔۔
دل پہ جذبوں کا راج ہے صاحب
عشق اپنا مزاج ہے صاحب

دشت کی ریت ہے بہت پیاسی
آبلوں کا خراج ہے صاحب

پاس حرمت نہیں ہے لفظوں کی
کیسا وحشی سماج ہے صاحب

آپ کو بھول ہی نہیں پاتی
میرا کوئی علاج ہے صاحب

سانس بھی ٹھیک سے نہیں آتا
نفرتوں کا رواج ہے صاحب

کچھ بھی بدلا نہیں ہے دنیا میں
جو بھی کل تھا وہ آج ہے صاحب

میرا حصہ نہیں مقدر میں
یہ مرا احتجاج ہے صاحب

غزل
۔۔۔۔۔
خزاں کی شام کو زخم بہار کس نے کیا
ہر ایک ریشۂ گل رنگ بار کس نے کیا

خوشی وصال کی ساری سمیٹ لی تو نے
فراق لمحوں کو بولو شمار کس نے کیا

ہر ایک شخص یہاں بد گمان تجھ سے تھا
نگاہ یار ترا اعتبار کس نے کیا

یہ میرے گھر کی اداسی گواہی دے گی تجھے
کہ تیرے ہجر کے دریا کو پار کس نے کیا

متاع جاں کو کیا خاک کس نے تیرے لئے
یہ خاک جاں ہی بتائے گی پیار کس نے کیا

وفا میں جان لٹانے کے بعد بھی لبنیٰؔ
مرے خلوص محبت پہ وار کس نے کیا

Leave a reply