ہمارا تعلق ایک ایسے معاشرے سے ہے جہاں محبت، اپنائیت، بھروسے اور تعلقات کا اصل معیار پیسہ ہے۔ جس کے پاس جتنا پیسہ ہوگا وہ اتنا ہی ان سب چیزوں کا حقدار ہوگا اور جس کے پاس جتنا کم پیسہ ہوگا وہ اتنا ہی ان اس سب کا کم حقدار ہوگا۔ یہاں صرف پیسہ دیکھ کر کسی انسان کے بارے میں اپنی رائے رکھی جاتی ہے۔ زیادہ دولت مند کے لیے تو تقریباً ہر زبان سے جی حضور ہی نکلتا ہے اور غریب کو صرف پیر کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔
جناب یہ پیسہ تو ایک ایسی چیز ہے جس کی رمک دھمک ہر کسی کو اپنی طرف ایسے کھینچتی ہے جیسے مکھناتیس لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہ بھی سو فیصد سچ ہے کہ آج ہر فساد کی جڑ صرف پیسہ ہے۔
اب تو یوں لگتا ہے جیسے یہ دنیا صرف اور صرف امیروں کے لیے ہی باقی رہ گئی ہے یہاں غریبوں کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ غریب ہی تو ہوتا ہے جو آسانی سے مار کھا جاتا ہے۔ اسے ہر جگہ نا صرف دھتکارا جاتا ہے بلکہ اسے اس کا قصور بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ تو غریب ہے اور غربت اس کی دشمن ہے۔ یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ ایک غریب کا بچہ امیر کے بچے کے برابر تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے ویسے عالی شان سکول کالجز نہیں ہوتے کیوں کے ان سکولوں اور کالجوں کی فیسیں تو آسمانوں سے باتیں کرتی ہے۔
پھر غریب کو تو یہاں زمین پر آرام سے جینے کا حق نہیں تو وہ آسمانوں سے باتیں کرنے والی فیسیں کہاں سے دیں گے۔ کیسے ہی کر کے وہ اپنی چادر کے مطابق پیر پھیلاتے ہوئے سرکاری سکولوں کا رخ کرتے ہیں۔ پر وہاں بھی ٹوٹی پھوٹی عمارتیں، وہی ٹوٹا پھوٹا فرنیچر اور ڈھیلے ڈھالے اساتذہ ان کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ وہ اساتذہ جن کے پاس علم تو ہوتا ہے پر اب غریب کے بچے پہ کون اپنا وقت صرف کرے۔
یہی سوچتے ہوئے بس تقریباً ہر ٹیچر اپنا ٹوٹل پورا کرتا ہے اور بچوں کو ان کے اصل حق سے محروم کردیتا یے۔ سکول سے آگے کی تعلیم تو بہت ہی کم غریب بچوں کے نصیب میں ہوتی ہے اور جن کے حصے میں وہ تعلیم آتی ہے انھیں اپنی بھوک کی قربانی دینا پڑتی یے۔ اپنے پیٹ کو باندھ کر جب وہ غربت سے جنگ لڑکر تعلیم حاصل کرلیتے ہیں پھر اس سے آگے کا مرحلہ آتا ہے جو بہت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ وہ مرحلہ روزگار ہے، ہر شخص تعلیم حاصل کرتا ہی اچھے روزگار کے لیے ہے تاکہ کل کو اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کو ایک اچھا اور روشن مستقبل دے سکے۔
یہ ساری جنگ ہوتی ہی ایک اچھے روزگار کے لیے ہے۔ پر یہاں بھی ہمیشہ کی طرح غریب کے ساتھ ناانصافی ہی ہوتی ہے۔ اس میں تو کوئی دو رائے ہے ہی نہیں کہ ہمارے معاشرے میں اب سفارشات کے بغیر ایک اچھی نوکری بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ آج ہر کوئی منہ کھولے رشوتیں لینے بیٹھا ہوتا ہے۔ ابھی ایک ڈیڈھ ماہ پہلے ہی کی مثال دیکھ لیں جب پٹواریوں کی بھرتی کے لیے کچھ آسامیاں آئیں جس کے لیے کھلم کھلی رشوت کا مطالبہ کیا گیا۔
رشوت بھی کوئی چھوٹی موٹی نہیں بلکہ لاکھوں کی رشوت مانگی گئی۔ اسی طرح اب ایک اچھی نوکری کے لیے رشوت اور سفارش دونوں کا ساتھ ساتھ ہونا ضروری ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ہر جگہ ایسے ہی ہے یقیناً ابھی بھی ہمارے معاشرے میں خوف خدا رکھنے والے کچھ لوگ موجود ہیں۔ لیکن بہت سی جگہوں پر ایسا ہی ہے جہاں غریبوں کے ساتھ ناانصافی عام یے اور وجہ پھر وہی کہ غریب کا قصور اس کی غربت ہے۔ اس پر مزید بھی بات ہوگی انشاء اللہ۔
@SeharSulehri