دنیا کی تاریخ کی تیز ترین فتح طالبان نے اپنے نام کی۔ گزشتہ دنوں طالبان نےصرف تیس دنوں میں کابل فتح کرتے ہی پورے افغانستان میں اپنے جھنڈے گاڑ دئے وہ بھی بغیر کسی بھاری خون خرابے اور نقصان کے۔ یہ سب کیسے ہوا آئئے جائزہ لیتے ہیں !
سب سے پہلے ہمیں طالبان کا انتظامی ڈھانچہ سمجھنا ہو گا کہ کیسے وہ بیس سال افغانستان میں فعال رہے۔
جب روس کا افغانستان سے انخلا ہوا تو قندھار میں پہلے سے جاری تحریک طالبان نے زور پکڑ لیا 1996 میں دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد ملا محمد عمر طالبان کے سربراہ کے طور پر سامنے آئے۔اس طرح ملا عمر طالبان کے پہلے "امیرالمومنین” کہلائے۔ملا عمر2001 میں امریکی حملے کے وقت بھی طالبان کے سربراہ تھے۔ملا عمر کے انتقال کے بعد جولائی 2015 میں طالبان نے ملا اختر منصور کو اپنا نیا سربراہ بنا لیا اس طرح ملا اختر منصور طالبان کے دوسرے امیرالمومنین ہوئے۔لیکن صرف 10 ماہ بعد ہی مئی 2016 میں ملا اختر منصور ایک حملے میں ہلاک ہوگئے۔ملا اختر منصور کے بعد مولوی ہیبت اللہ اخوانزادہ نئے سربراہ بنے۔ مولوی ہیبت اللہ اخوانزادہ طالبان کے موجودہ امیرالمومنین ہیں ان کے نیچے تین نائب امیر ییں۔پہلے نائب امیر ملا محمد یعقوب جو طالبان کے نظریاتی اور مزہبی امور سنبھالتے ہیں دوسرے نائب امیرسراج الحق حقانی جو طالبان کی عسکری امور دیکھتے ہیں جبکہ تیسرے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر ہیں جو امن مزاکرات میں طالبان کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ طالبان کی ایک شوری ہے جسے طالبان کی کابینہ کہا جاسکتا ہے اس شوری کے نیچے چند ونگ کام کرتے ہیں جن میں عسکری اور سیاسی ونگ کے علاوہ کچھ کمیشن بھی ہیں جنہیں ہم ان کی شاخیں بھی کہ سکتے ہیں جن کی جڑیں عوام تک ہیں۔طالبان کا ہر صوبے کے لئے ایک شیڈو گورنر اور ایک کمانڈر بھی ہوتا ہے۔دیکھیں گزشتہ بیس برسوں میں کس طرح ایک منظم تنظیم سازی کر کے طالبان نے اپنی اس تحریک کو فعال اور متحرک رکھا ہوا تھا اور جب وقت آیا تو کیسے صرف تیس دنوں میں بغیر خون خرابے اور املاک کو نقصان پہنچائے بناء پورا افغانستان فتح کر لیا کیونکہ اس جنگ میں ہتھیار ڈالنے والوں کو طالبان نے قتل نہیں کیا گو کہ بہت سے ایسے طالبان دشمنوں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالے جنہوں نے طالبان دشمنی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا تھا طالبان نے اس تمام۔تر کاروائ کے دوران کسی پر کوئ ٹارچر بھی نہیں کیا اس پورے تیس دنوں کی کاروائ میں ٹارچر کا ایک واقعہ بھی رپورٹ نہیں ہوا۔اور اس پوری کاروائ کے دوران نہ کوئ چوری کی نہ کوئ لوٹ مار کی اور نہ یی کوئ اناج وغیرہ لوٹا چاہتے تو بنک اور اے ٹی ایم مشینیں دوکانیں وغیرہ سب لوٹ سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔اور یہ ہی سب باتیں عوام میں گھر کرتی رہیں۔ اس کے علاوہ طالبان نے عام۔معافی کا اعلان کیا اور مخالفین سے مھائدہ کئے اور ان پر عمل کیا اگر کسی مخالف نے ان سے مھائدہ کیا کہ وہ کسی دوسری حگہ حجرت کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے جانے دیا۔اس کے علاوہ خواتین سے بد سلوکی کا کوئ ایک واقعہ بھی رپورٹ نہیں ہوا۔ خاص بات یہ ہے کہ اس دوران طالبان نے کوئ مزہبی پابندی بھی نہیں لگائ کسے نے داڑھی رکھی ہے یا نہیں جو نماز پڑھ رہا ہے یا نہیں کسی کو کچھ نہیں کہا عورتوں کو کہا کہ آپ پردے میں اپنے سارے امور انجام دیں اسکول کھلوائے اور اس دوران خواتین کی تعلیم میں بھی کوئ رکاوٹ نہیں ڈالی گئ۔جن علاقوں کو بھی فتح کیا وہاں کاروبار بند نہیں کیا دوکانیں کھلی رہیں کاروبار اپنے عمومی انداز میں چلتے رہے۔
کسی صحافی، غیر ملکیوں کو یا این جو او کے نمائندوں کو قتل نہیں کیا گیا اس کے علاوہ فرقہ ورانہ واقعات بالکل نہیں ہوئے انہوں نے اہل تشیع اور بریلویوں کے ساتھ بھی مھائدات کئے بلکہ دیگر نسل کے شہریوں جیسے تاجک یا ازبک سے بھی مھادات کئے کسی کو فقہی یا نسلی بنیادوں پر کوئ نقصان نہیں پہنچایا۔انہوں نے اس دوران نہ کوئ اسکول بند ہونے دیا اور نہ کوئ سرکاری دفتر سب ان کی نگرانی میں اپنا کام کرتے رہے۔طالبان نے کسی بھی مخالف کے مال و دولت اور اسلحہ وغیرہ پر قبضہ بھی نہیں کیا سوائے غیر ملکی افواج سے چھینا گیا اسلحہ اور مال و اسباب کو مال غنیمت کے طور پر رکھ لیا۔اس کے علاوہ طالبان نے کسی کو زبردستی لڑنے پر مجبور بھی نہیں کیا۔
یہ ہیں وہ اسباب جس کے باعث بناء خون بہائے دنیا کی طویل ترین جنگ پر طالبان نے تیز ترین فتح حاصل کی۔ اب تو ساری دنیا اس حیرت انگیز واقعہ پر تحقیق کرتی رہے گی اور کتابیں لکھے گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب کوئ کام اللہ کی رضا کے لئے کیا جاتا ہے اور اس کے بتائے ہوئے اصول پر چلا جاتا ہے تو ایسے ہی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس خطے سمیت پوری دنیا میں امن و سلامتی ہواور لوگوں کی جان و مال محفوظ رہے۔انشاءاللہ

@Azizsiddiqui100

Shares: