لاہور :اللہ کا شکرہے کہ اس نے بچالیا:ملتان سے لاہور کے لیے سفرکے دروان کیا ہوا:ایک دکھ بھری کہانی ،اطلاعات کے مطابق ملتان سے لاہور کے درمیان ایک دردناک سفر کی کہانی جہاں اس میں بیان کرنے والا اللہ کا شکر اداکررہے ہیں وہاں وہ ارباب حکومت اور پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے معیار اورکردار کے بارے میں بھی نوحہ کناں ہیں
یہ ایک ذمہ دار اور قابل احترام خاتون ہیں جن کا نام فخرہ رضوان ہے اور وہ جس طرح اپنی آب بیتی سناتی ہیں ، ان لوگوں کو ضرور سننی چاہیے جو ان کی طرح اعتماد کو کھو بیٹھتے ہیں،
محترمہ کہتی ہیںکہ !
میں اپنی گاڑی ٹویوٹا فارچیونر 2020 پر 16 جنوری 2021 کو ملتان کے قریب سے تقریبا شام چھ بجے گاڑی چلاتےہوئے گزررہی تھی کہ حادثے کا شکار ہوگئی ۔ ہم سب نے سیٹ بیلٹ پہنے ہوئے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ اچانک روڈ پر گنے والے ٹریکٹر ٹرالی سے گاڑی ٹکرا گئی ، یہ ٹریکٹر ٹرالی گنے کے ساتھ بھری ہوئی تھی گاڑی اسٹاپ پر آنے سے پہلے کئی بار ٹکرائی اور گر گئی
وہ کہتی ہیں کہ اس حادثے میں میں میرے والدین ، اور میری بیٹی سیدہ روباب عالی اور چھوٹی شہنشاہ کو کئی چوٹیں لگیں
* حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سامنے کی طرف ٹریکٹرٹرالی کے ساتھ کئی مرتبہ گاڑی ٹکرائی لیکن اس دوران گاڑی میں موجود کوئی بھی ائیر بیگ میں سے نہیں کھلا
وہ کہتی اسی وجہ سے سامنے کی چھت اور بونٹ کو نقصان پہنچا جس سے میرے والد اور مجھے شدید چوٹیں ، وہ کہتی ہیں کہ اگریہ ایئر بیگ کھل جاتے تو کبھی یہ چوٹیں نہ آتیں
وہ کہتی ہیں کہ سچ یہ ہے کہ ٹویوٹا فارچیونر ایک انتہائی قیمت والی ایس یو وی ہے جس کی قیمت 9 لاکھ ڈالر ہے
چونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں ٹویوٹا جیسی کمپنیوں کی اجارہ داری لوگوں کو اپنی گاڑیاں خریدنے کے سوا کوئی چارہ نہیں چھوڑتی ہے ، جو نہ صرف مہنگی ہوتی ہیں بلکہ ان گاڑیوں میں حفاظتی اقدامات بھی بہت کم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جان کو بہت زیادہ خطرات لاحق رہتے ہیں
وہ کہتی ہیں کہ اتنی قیمتی گاڑیاں رکھنے کےباوجود حفاظتی اقدامات کا نہ ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے
فرخندہ رضوان کہتی ہیں کہ کوئی آٹوموبائل مانیٹرنگ سسٹم پاکستان میں فعال ہے؟
وہ کہتی ہیں کہ
ریگولیٹر ، یا وزارت صنعت ، انجینئرنگ بورڈز ، پالیسی سازوں ، مسابقتی کمیشن ، وزیر اعظم،قابل احترام عدالتیں جو ان نام نہاد اعلی کار سازوں کے ذریعہ اطمینان بخش حفاظتی معیارات کو یقینی بناسکتی ہیں جو نہ صرف پیسوں سے صارفین کو محروم کرتی ہیں بلکہ انسانی زندگیوں کو مطلوبہ حفاظت فراہم نہیں کررہے ہیں؟








