تھرپارکر میں رواں برس کتنے بچے جاں بحق ہوئے؟ حکومتی بے حسی سامنےآ گئی
سندھ کے علاقہ تھر پارکر میں غذائی قلت اور وبائی امراض سے بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے،
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سندھ کے علاقے تھر پارکر میں بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے. سول ہسپتال مٹھی میں غذائی قلت کی وجہ سے 5 بچے آج دم توڑ گئے ہیں. ایک رپورٹ کے مطابق رواں ماہ یعنی جون کے بیس دنوں میں 50 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ رواں برس یعنی اس سال کے ابتدائی ساڑھے پانچ ماہ میں 388 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں. سرکاری طبی مرکز کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں ادویات کی قلت ہے اور جو ادویات دستیاب ہیں وہ اس نوعیت کی نہیں کہ جلد اثر دکھا پائیں۔
گزشتہ برس سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بھی سندھ کے ضلع تھرپارکر میں بچوں کی ہلاکت کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا تھا تاہم کمیشن کی جانب سے کوئی خاطر خواہ کارکردگی سامنے نہیں آ سکی۔وزیراعظم عمران خان نے بھی سندھ کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے تھر پارکر کے باسیوں کے لئے صحت کارڈ کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک صحت کارڈ فراہم نہ کئے جا سکے. تھر پارکر میں بچوں کی اموات جاری ہیں.
واضح رہے کہ تھر پارکر میں قحط سالی کے بعد فلاح انسانیت فائونڈیشن نے واٹر پروجیکٹ کے تحت تین ہزار سے زائد واٹر پروجیکٹ تھر پارکر میں مکمل کئے ہیں جن میں ہینڈ پمپ اور کنویں ہیں، فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالروف ہیں ، فلاح انسانیت فاونڈیشن کے رفاہی کاموں کے باوجود حکومت پاکستان نے ان پر پابندی لگا دی ہے. ایف آئی ایف تھرپارکر سندھ میں سولر سسٹم کے ذریعہ ٹیوب ویل چلا رہی ہے۔ جہاں ریت اڑتی تھی وہاں کھیت آباد اور فصلیں اگ رہی ہیں ،فلاح انسانیت فاونڈیشن کی جانب سے تھر پارکر میں دوصحت کے مراکز پر بھی کام جاری تھا .
سندھ کی حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مہیش کمار ملانی کا کہنا ہے کہ تھرپارکر ایک دور دراز اور پسماندہ علاقہ ہے، جہاں زیادہ تر لوگ گاوٴں میں رہتے ہیں۔ اس علاقے میں غربت بہت ہے اور پانی، بجلی، تعلیم سمیت صحت کی سہولیات بہت کم ہیں۔