آئی جی پنجاب کا قرعہ انعام غنی کے نام نکل آیا،حکومت نے بڑی امیدیں‌ قائم کرلیں‌

لاہور : آئی جی پنجاب کا قرعہ انعام غنی کے نام نکل آیا،حکومت نے بڑی امیدیں‌ قائم کرلیں‌،اطلاعات کے مطابق سابق آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کی سبکدوشی کے بعد وفاقی حکومت نے انعام غنی کو صوبے کی پولیس کا نیا سربراہ تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق نئے آئی جی پنجاب کی تعیناتی کیلئے سمری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ارسال کردی گئی، وزیر اعظم عمران خان کی منظوری کے بعد اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نوٹیفکیشن جاری کرے گی۔

شعیب دستگیر کی رخصتی کے بعد آئی جی پنجاب کے لیے انعام غنی، اے ڈی خواجہ اور محسن بٹ کے نام زیر غور تھے جب کہ کلیم امام نئے آئی جی پنجاب کے لیے مضبوط امیدوار تصور کیے جا رہے تھے لیکن قرعہ انعام غنی کے نام کا نکل آیا۔

اختلافات کا آغاز اس وقت ہوا جب سی سی پی او نے افسران کو آئی جی کے حکم سے پہلے تمام معاملات اپنے علم میں لانے کی ہدایت کی جس پر آئی جی پنجاب شعیب دستگیر بھڑک اٹھے، انہوں نے سی سی پی او کی معذرت قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا

 

 

وزیراعظم عمران خان نے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کی تبدیلی کی منظوری دیتے ہوئے صوبے کے نئے انسپکٹر جنرل آف پولیس کیلئے نام طلب کئے تھے۔

سٹیبلشمنٹ ڈویژن نے انعام غنی کی بطور انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) پنجاب تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ انعام غنی گریڈ اکیس کے آفیسر ہیں جو جنوبی پنجاب میں ایڈیشنل آئی جی پنجاب تعینات رہ چکے ہیں۔

 

 

ادھر سابق آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کا بیان بھی سامنے آ گیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے بیان پر وزیراعلیٰ پنجاب کو آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے کمانڈر کے خلاف بات کرکے رولز کی خلاف ورزی کی۔ قانون کے مطابق کارروائی ہوتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

سٹیبلشمنٹ ڈویژن نے شعیب دستگیر کو سیکرٹری نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن تعینات کر دیا گیا، اس سلسلے میں نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ ادھر اے ڈی خواجہ کو ممبر وفاقی محتسب تعینات کرتے ہوئے اس کا بھی اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ سارا تنازع بغیر مشاورت سی سی پی او لاہور کی تعیناتی پر پیدا ہوا تھا۔ شعیب دستگیر نے جمعہ کو وزیراعظم پاکستان سے سی سی پی او کی تعیناتی پر اعتراض کیا تھا۔ آئی جی پنجاب نے موقف اختیار کیا کہ بغیر مشاورت سی سی پی او لاہور کی تعیناتی قبول نہیں ہے۔ اس پر وزیراعظم نے آئی جی کو وزیراعلیٰ سے ملاقات کی ہدایت کی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے سٹی چیف پولیس افسر (سی سی پی او) عمر شیخ اور آئی جی شعیب دستگیر کے درمیان تنازع کے بعد شعیب دستگیر کی تبدیلی پر غور شروع کر دیا گیا تھا۔

آئی جی کیساتھ ون آن ون ملاقات میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار مصالحت کی کوشش کرتے رہے۔ تاہم اس کے بعد بھی آئی جی پنجاب دفتر بھی نہیں آئے۔ جس کے باعث دو روز تک آئی جی آفس پنجاب میں کام بند رہا۔

دوسری جانب سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے آئی جی پنجاب سے اختلافات کی تردید کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ شعیب دستگیر میرے سینئر افسر اور کمانڈر ہیں۔ پولیس فورس میں ڈسپلن کیلئے جی پی ایس لوکیشن مانگی ہے۔ آئی جی مجھے لوکیشن کا کہیں گے تو میں ضرور دوں گا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل ڈاکٹر کلیم امام صرف تین ماہ آئی جی 13 جون 2018ء سے 11 ستمبر 2018، محمد طاہر 11 ستمبر 2018ء سے 15 اکتوبر 2018ء امجد جاوید سلیمی 15 اکتوبر 2018ء سے 17 اپریل 2019ء، کیپٹن (ر) عارف نواز خان 17 اپریل 2019ء سے 28 نومبر 2019ء آئی جی پنجاب رہے۔ شعیب دستگیر پانچویں آئی جی پنجاب تھے جو 28 نومبر 2019ء کو تعینات ہوئے۔

 

 

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلی حکومتوں میں لوگ ذاتی کام کرتے تھے، اسی لیے پانچ سال پورے کر لیتے تھے۔ موجودہ حکومت میں جو کام نہیں کرتا، اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ صرف پانچ نہیں، 500 تبدیلیاں بھی کرنا پڑیں تو کرینگے۔

Comments are closed.