حصہ اول۔
وہ کون سے عوامل ہیں جو قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں؟ یہ جاننے کے
لیے ہمیں ویت نام کی تاریخ میں جھانکنا ہو گا۔ویت نام کے دارالحکومت ہا نوئی
میں گھومتے ہوئے ، آپ ترقی کی جانب بڑھتے قدموں کی چاپ واضح طور پر سن سکتے
ہیں ۔ لوگگاڑیوں میں گھومتے ہیں ، ان گنت چھوٹی دکانوں میں فون سے لے کر کھانے
تک سب کچھ خرید و فروخت کرتے ہیں ، اور اسکول یاکام پر جانے کے لیے ادھر ادھر
بھاگتے ہیں۔ ویت نام تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے آگے
بڑھ رہا ہے۔ یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ محض 30 برس پہلے ، یہ ملک دنیا کے
غریب ترین ممالک میں سے ایک تھا۔ جہاں مہنگائی کی شرح 700 فیصد تھی، کسان بھوک
سے مر رہے تھے اور معیشت کو سہارا دینے کے لیے سوویت یونین سے یومیہ 4 ملین
ڈالر کی امداد لی جا رہیتھی۔
45 برس قبل جب جنگ ختم ہوئی اور غیر ملکی افواج کا ویتنام سے انخلا شروع ہوا تو
ہر طرف تباہی اور بربادی کی داستان رقم تھی۔تقریبا 20 سال طویل جاری رہنے والی
جنگ جب ختم ہوئی توہر کوئی بے یقینی کی کیفیت کا شکار تھا۔ طویل جنگوں کے بعد
ملکیمعیشت اور انفراسٹرکچر تو تباہ ہوتا ہی ہے، لیکن افرادی قوت بھی بری طرح
متاثر ہوتی ہے۔ جنگ بھی اتنی طویل جس میں ایکنسل جوان ہو جائے۔ کوئی نہیں جانتا
کہ اتنی طویل جنگ دیکھنے کے بعد وہاں کے عوام کی نفسیاتی کیفیت کیا ہو گی۔ وہ
دوبارہ سےاپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں گے کہ نہیں۔ تقریبا 20 لاکھ شہری اس جنگ
کے دوران مارے گئے، دو لاکھ فوجی اس کے علاوہتھے۔ تقریبا ڈھائی ملین افراد نے
فلپائن، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور دیگر ممالک میں پناہ لی۔
ویت نام میں تاریخ کی سب سے زیادہ بمباری ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم میں 2.1 ملین ٹن
کے مقابلے میں 6.1 ملین ٹن سے زیادہ بمگرائے گئے۔ 3 امریکی طیاروں نے 20 ملین
گیلن جڑی بوٹی مار دواؤں کو ویت کانگ کے چھپے ہوئے مقامات کو ناکارہ بنانے کے
لیےاستعمال کیا۔ جس نے 5 ملین ایکڑ جنگل اور 500،000 ایکڑ زرعی زمین کو ختم کر
دیا۔
یہ جنوب مشرقی ایشیائی قوم ایک درمیانی آمدنی والا ملک کیسے بنی؟ جب 20 سالہ
ویت نام جنگ 1975 میں ختم ہوئی تو ویت نام کیمعیشت دنیا کی غریب ترین معیشتوں
میں سے ایک تھی۔ 1980 کی دہائی کے وسط تک ، فی کس جی ڈی پی $ 200 اور $ 300 کے
درمیان پھنس گیا تھا۔ لیکن پھر سب کچھ بدل گیا۔
ویت نام کی کامیابی کی کہانی 1986 کی Doi Moi ("rejuvenation”) اصلاحات سے شروع
ہوتی ہے۔ اس ماڈل کے تحت ابتدائیطور پر زیادہ توجہ تعلیم کے شعبہ کو دی گئی.
ویتنام کی حکومت نے ابتداء ہی میں یہ حقیقت جان لی کہ کوئی بھی ملک صحیح معنوں
میںمستقل ترقی کا خواہش مند ہے تو اس کو سب سے پہلے اپنے تعلیمی نظام میں
اصلاحات کرنا ہونگی۔ یہی وجہ ہے کہ طویل جنگ سےنبردآزما ہونے والا ملک ویتنام
بھی ہم سے ترقی کی راہ میں بہت آگے نکل گیا کیونکہ انھوں نے جنگ کے بعد معاشی
اور تعلیمیاصلاحات پر زور دیا۔
یہاں کی آبادی آج 95 ملین ہے ، جن میں سے نصف 35 سال سے کم ہیں۔ بڑھتی ہوئی
آبادی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئےیہاں کی حکومت نے پرائمری تعلیم میں بڑے
پیمانے پر عوامی سرمایہ کاری کی۔ کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کا مطلب ملازمتوں کی
بڑھتیہوئی ضرورت بھی ہے۔ ویت نام نے بنیادی ڈھانچے میں بھی بہت زیادہ سرمایہ
کاری کی ، جس سے انٹرنیٹ تک سستے پیمانے پررسائی کو یقینی بنایا گیا۔ ویتنام
میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں تعلیم کا بجٹ
20 فیصد ہے۔
معاشی ترقی حاصل کرنے کے لیے ویت نام کی حکمت عملیوں میں سے ایک اس کے تعلیمی
نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا۔ان کے نزدیک تعلیم صرف ڈگری کے حصول کا
ذریعہ نہیں بلکہ اس کا مقصد ایک ایسا نظام بنانا تھا جس کو صنعتی نظام کے ساتھ
منسلک کیا جا سکے اور ہنر مند افراد کی تعداد میں اضافہ ہو۔
ویت نام کی حکومت انگریزی زبان کی تعلیم، اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے
اور آسٹریلیا ، فرانس ، امریکہ ، جاپان اور جرمنیجیسے ممالک کے ساتھ تبادلے کے
لیے کوشاں ہے۔ حکومت بیک وقت ویت نام میں غیر ملکی طلباء اور محققین کی تعداد
بڑھانے کیکوشش میں مصروف عمل ہے۔
مرکزی حکومت نے معاشی ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک منصوبہ وضع کیا ، جس کا
بنیادی مقصد جدید صنعت اور سرمایہ کاری کیصلاحیت کو مضبوط بنانا ہے۔ اس منصوبے
کو DRV ماڈل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس نے صنعتوں کو پیداوار کے حجم کوبڑھانے
کی ترغیب دی۔ ریاست نے سبسڈی کے ذریعے کسی بھی نقصان کو پورا کیا۔ انڈسٹری نرم
بجٹ کی پابندی کے تحت چلائیگئیں ۔ ریاست نے اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کیا۔
کمپنیوں کو پیداوار کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف قسم کی مفت گرانٹ دی گئی،
جنہیں کیپٹل اسٹاک میں اضافے کے طور پر محسوس کیا گیا۔
Imran Afzal Raja is a freelance Journalist, columnist & photographer. He
has been writing for different forums. His major areas of interest are
Tourism, Pak Afro Relations and Political Affairs. Twitter: @ImranARaja1