تحریک انصاف کا پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کی غلطی

0
391
pti

5 فروری 2023 کو ایک بلاگ میں، میں ان سب سے پہلے لوگوں میں شامل تھی جس نے تحریک انصاف کی جانب سے آزاد امیدواروں کی حمایت کے لیے "پراکسیز” کے استعمال کے امکان کی اطلاع دی تھی کہ تحریک انصاف کے آزاد امیدوار ممکنہ طور پر مجلس وحدت المسلمین یاجے یو پی شیرانی میں شامل ہو ں گے۔ چیئرمین مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس نے آزاد امیدواروں کی شاندار برتری سے قبل عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی۔ اس کے بعد اعلان کیا گیا کہ تحریک انصاف کے امیدوار ایم ڈبلیو ایم میں شامل ہوں گے، ایم ڈبلیو ایم قومی اسمبلی کی ایک نشست تحریک انصاف کی حمایت سے جیتی ہے

تحریک انصاف کے آزاد امیدوار وں کی بڑی تعداد الیکشن جیت چکی ہے، خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کو سادہ اکثریت حاصل ہو گئی ہے تا ہم تحریک انصاف نے سبق نہیں سیکھا ، تحریک انصاف مسلسل غلطیاں کر رہی، اور انکی غلطیوں کی فہرست میں اضافہ ہو رہا ہے،موجودہ پارلیمان کے مطابق مرکز میں حکومت بنانے کے لئے 169 سیٹوں کی ضرورت ہے،انتخابی نتائج کے مطابق آزاد امیدوار، ن لیگ،پیپلز پارٹی کوئی بھی ایک دوسرے سے اتحاد کئے بغیر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں،آزاد امیدواروں کا کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لئے نتائج کے بعد 72 گھنٹےکا وقت ہوتا ہے، تحریک انصاف کے جو آزاد امیدوار ہیں انکے لئے راستے کھلے ہیں، وہ کسی بھی پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں، سابقہ پارٹی کے ساتھ چلنا انکی کوئی قانونی مجبوری نہیں،
دوم، عمران خان جو اڈیالہ جیل میں ہیں انکی یہ ناقص سیاسی ذہانت کی عکاسی ہے کہ وہ کسی بھی دوسری جماعت سے ہاتھ ملانے سے انکار کر رہے ہیں جو الیکشن جیت چکی ہے، حالانکہ یہ وقت کی ضرورت ہے،ملک کی بھلائی کے لئے عمران خان کو اتحاد کر نا چاہئے
سوم،تحریک انصاف کو قومی دھارے ، حکومت میں رہنے، مرکز میں مضبوط اتحاد بنانے، اور صوبوں میں مضبوط قدم رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی میں شامل ہونا چاہیے تھا ، تحریک انصاف کو جن سیٹوں‌پر لگتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ، ان پر دوبارہ گنتی کی درخواست دائر کر سکتے ہیں جہاں سے ان سے مینڈیٹ چھینا گیا،

تحریک انصاف کی طرح مسلم لیگ (ن) کے پاس ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کوئی معاشی وژن نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے متعین کردہ خطوط پر عمل کرتے ہوئے بیک وقت آمدنی پیدا کرنا اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ برآمدات کے لیے منڈیوں کو پھیلانا آنے والی حکومت کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔

پیپلز پارٹی کیوں؟ وجہ ظاہر ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف دونوں عمر کی اس حد تک جا پہنچے کہ انتخابات میں یہ ان کا آخری دور ہوسکتا ہے۔ مریم نواز اب بھی کسی بھی سنجیدہ انتظامی عہدے پر ایک غیر تجربہ شدہ ہیں، بلاول بھٹو زرداری چالیس کی دہائی کے اوائل میں ایک نوجوان ہیں اور ان کے آگے برسوں کی سیاست ہے۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے وہ پہلے ہی اپنے آپ کو شاندار طریقے سے اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔ دوم، آصف زرداری اپنے مستقبل کے لیے اپنے دور کو کامیاب بنانے کے لیے بھر پور کوشش و محنت کریں گے، جس میں مالیاتی پہلو سے نمٹنا بھی شامل ہے۔

Leave a reply