رمضان ، عوام اور مہنگائی
رواں برس رمضان المبارک میں پہلی بار ایسا کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے جو قربانی والی عید پر دیکھنے کو ملتا، رمضان میں راشن کے حصول کے لئے کل ایک ہی روز میں 10 سے 12 لوگوں نے میرے دروازے پر دستک دی،افسوسناک بات یہ کہ دیکھنے میں وہ غریب نہیں تھے، چھوٹے بچے، عورتوں کے ساتھ مرد تھے،جنہیں ہم لوئر مڈل کلاس کہتے ہیں، یقینا وہ اس علاقے میں کام کرنیوالی ملازمائیں ہوں گی یا سابقہ ملازمائیں جن کی کالز آتی ہیں رمضان میں راشن پیکج کے لئے،
شہری علاقوں میں خوراک کی افراط زر کی شرح 42 فیصد ہو چکی ، چیزیں بہت مشکل ہو چکی صرف غریبوں کے لئے نہیں بلکہ جو اوپر کا طبقہ ہے وہاں بھی یہی صورتحال ہے، گھر، کاریں سب موجود ہے لیکن گھر کے اندر ملازموں کی تعداد کم کر دی گئی، ڈرائیور چلے گئے، گاڑیاں دھونے کے لئے قریبی علاقے کا لڑکا آ جاتا ہے، باروچی جو مستقل ملازم تھے انکو جزوقتی کر دیا گیا ہے،
مالی مشکلات کی وجہ سے رمضان المبارک ایک آزمائش بن جاتا ہے،خود ساختہ مہنگائی بھی رمضان میں ہو جاتی ہے، اشیاء کی قیمتیں دکاندار تو من مانی قیمتوں پر فروخت کرتے ہی ہیں تا ہم اس بار رمضان کے آغاز سے حکومت نے بھی کچھ ایسا ہی کام کیا، آٹے کی قیمت جو رمضان سے قبل دس کلو کے تھیلے کی 650 روپے سرکاری قیمت تھی وہ رمضان کے آغاز سے حکومت نے قیمت بڑھائی اور اب وہی دس کلو کا سرکاری آٹا 1150 روپے میں مل رہا ہے،گروسری سٹور سمیت کوئی ایسی جگہ نہیں جو رعایتی نرخوں پر چیزیں فروخت کرے،لاہور ، اسلام آباد اور پنڈی میں سستی ایرانی مصنوعات میسر ہیں،گروسری سٹور میں ایرانی سامان موجود ہوتا ہے جس میں تیل اور پنیر بہت مشہور ہے، سامان بلوچستان ایران سرحد کے راستے لایا جاتا ہے، ایرانی مصنوعات پہلے بلوچستان اور لیاری کراچی میں ملتی تھیں لیکن اب دیگر شہروں میں بھی مل رہی ہیں
ایک چیز جس پر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ کم ڈشز بنا رہے ہیں۔ سحر اور افطار کی تیاری کم کی جا رہی ہے لیکن اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو افطاری کے بعد نماز کے لیے وقفہ کرتے ہیں اورپھرنمازکے بعد اسی طرح ہی ڈنر کرتے ہیں،اور پھر سحری کے لیے خصوصی پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ اسلام کی روح ہے؟ کیا روزے کا مطلب یہ ہے کہ روزے سے پہلے اور بعد میں دس مختلف پکوانوں کے ساتھ سحری و افطاری کی جائے؟ ہم کیوں پکوانوں اور ڈشز کی طرف جاتے ہیں ، کسی عام کھانے سے روزہ کیوں نہیں کھولتے، جیسے سادہ افطاری کریں اور اسکے بعد ون ڈش ڈنر ہو، اگر کسی کو بہت کچھ نصیب ہو تو کیا وہ اسلام کی روح کو مدنظر رکھتے ہوئے اس رقم کو غریبوں کو کھانا کھلانے کے لیے استعمال نہ کرے؟