یار یہ لوگوں کو پاس بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر تھوکنے کی کیا بیماری ہے؟
چند روز قبل ایک سیفٹی سیشن کیلئے میٹنگ روم گئے.. پتہ چلا کہ ٹرینر ابھی آیا نہیں باہر بیٹھ کر ہی انتظار کرنا پڑے گا.. سب بندے درختوں کے نیچے دو دو تین تین ٹولیوں کی شکل میں بیٹھ گئے.. مجھے معلوم تھا کہ یہ یہاں بیٹھ کر اور کچھ کریں نہ کریں.. ایک سگریٹ لازمی پئیں گے جس کا دھواں مجھے تنگ کرے گا، دوسرا تمباکو اور چونے کا مکسچر لازمی رگڑیں گے جسے پھونک سے اڑا کر چھانیں گے تو سانس کے ساتھ ناک کو چڑھے گا اور تیسرا تھوک لازمی پھینکیں گے..
یہ باتیں میری میموری میں پکی پکی فٹ ہیں.. لہٰذا میں بندوں سے زیادہ تر دور ہو کر بیٹھتا ہوں.. وجہ نفرت نہیں.. وجہ یہ ہے کہ میں ان تینوں چیزوں سے الرجک ہوں..
لہٰذا حسبِ عادت میں ان سے قدرے فاصلے پر درخت کے نیچے بلاک رکھ کر بیٹھ گیا..
کچھ دیر ہی گزری ہو گی.. ان دور بیٹھے ہوئے بندوں کو نادیدہ طاقت نے اکسایا اور وہ میرے پاس دائیں بائیں آ کر بیٹھ گئے.. ایک نے سگریٹ جلا لیا.. دوسرے نے تمباکو کی ڈبی نکالی، وہ تمباکو بنانے لگا تو دو دوسروں نے بھی مانگ لیا.. تینوں نے تمباکو بنا کر اس کی پھک اڑائی اور تمباکو منہ میں رکھ کر زمین کو تھوکو تھوک کرنا شروع کر دیا.. دل میں گالیاں دیتے ہوئے اٹھا اور پرے جا کر کھڑا ہو گیا..
اب اس وقت فون کال کرنے کیلئے روم سے باہر بینچ پر بیٹھا ہوں ایک میرا رومیٹ ہی نکلا اور یہاں کھڑے ہو کر برش کرنا شروع کردیا.. تھوک پر تھوک پھینکی جا رہا ہے..
مجبور ہو کر اسے کہا یار واش بیسن پر چلا جا.. تیری مہربانی کیوں مجھے آوا ذار کر رہا ہے…
ریفائنری میں جاب کی جگہ پر میٹل سٹرکچر کے بنے ہوئے گیارہ فلور ہیں.. پتہ اس وقت لگتا ہے جب اوپر والے فلور کی گریٹنگز سے تھوک نیچے آ کر گرتا ہے.. کچھ بندے تو یہ حد کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی فلور پر ہیں ریلنگ پر آئیں گے وہاں سے گراؤنڈ پر تھوک پھینکیں گے اپنی طرف سے وہ اچھا کر رہے ہوتے ہیں کہ نیچے والی گریٹنگ پر کام کرنے والوں پر تھوک نہ گرے لیکن گراؤنڈ فلور والوں کا کوئی خیال نہیں.. اب گیارہویں فلور سے زمین تک تھوک پہنچنے میں جو وقت لگے گا عین ممکن ہے اس دوران کوئی گزرتا ہوا بندہ اسی جگہ پہنچ جائے اس پر گر جائے.. یا پھر ہوا سے اس کے ذرات کہاں تک جائیں کچھ معلوم نہیں..
پاکستان میں ہم جیسا بندہ موٹر سائیکل کی سواری ہی عام طور پر کرتا ہے کاروں والے کار کا شیشہ کھول کر تھوک کی فائرنگ کر رہے ہوتے ہیں.. آگے والے موٹر سائیکل سوار پیچھے آنے والوں کا خیال کیے بغیر تھوک پھینک رہے ہوتے ہیں
کسی بندے کے ساتھ بات کرنے کیلئے کہیں رک جائیں تو وہ پانچ منٹ کی بات کرتے ہوئے دس مرتبہ تھوک پھینکتا ہے..
خاص طور پر کراچی والوں نے حد ہی کی ہوئی ہے.. کراچی میں کیا اردو سپیکنگ، کیا مہاجر، کیا پنجابی، کیا کشمیری، بلوچی، پٹھان، سندھی یا ہزارہ وال، کیا مرد اور کیا عورتیں .. کوئی بھی گٹکے سے محفوظ نہیں، بس میں بیٹھیں گے تو شیشے والی سائیڈ گٹکا مین کی ہی ہو گی.. اور اس نے وہیں سے باہر والوں کو منور کرتے رہنا ہے.. پھر اچھی اچھی صاف ستھری عمارتوں میں جگہ جگہ دیواروں پر لال رنگ کا گند ہی گند نظر آتا ہے..
پچھلے سال کراچی میں ایک مارکیٹ میں گیا.. نیا رنگ و روغن بتا رہا تھا کہ مالک نے اچھا خاصا خرچہ کیا ہے.. وہاں سیڑھیوں میں اوپر نیچے تک گٹکے اور پان کے انتخابی نشانات لگے ہوئے تھے..
پوچھنا یہ ہے کہ یہ بیماریاں عربوں، انڈونیشین، چائنیز، جرمنز، فلپینی، کورینز اور برطانوی باشندوں میں نہیں دیکھی، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے ان میں ایسی کوئی معیوب حرکت یا بیماری نہیں دیکھی ..پاکستانیوں اور انڈینز میں یہ حرکات اور بیماریاں کیوں ہیں؟