نئی ٹرمپ انتظامیہ،پاکستان کی حکمت عملی،تجزیہ:شہزاد قریشی
نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے پاکستان میں سبکدوش ہونے والی امریکی سفیر سے ملاقات میں نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مثبت روابط جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ قارئین نئی ٹرمپ انتظامیہ کو لے کر پاکستان کی سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا کیا ہے ۔ یاد رکھئے امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ ہو یا ماضی کی انتظامیہ سب سے پہلے امریکی مفادات کو دیکھا جاتا ہے۔ امریکہ میں کانگریس، سینیٹ ، سی آئی اے انسانی حقوق کا پرچار کرنے والوں کے ساتھ پینٹا گان موجود ہے امریکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پینٹا گان کی پالیسی سب پر حاوی ہوتی ہے۔ امریکہ ملک میں سیاسی جماعتوں کو لے کر آگاہ ہے ملک کی جو سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں رہتے ہوئے پاک فوج اور جملہ اداروں پر تنقید کرتی ہیں وہ اقتدار میں ذاتی اور جماعتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے اس کی حمایت کرتے ہیں ملک کی سیاسی جماعتوں میں بدلتے اتحادوں، انحراف آپس کی لڑائی اور اقربا پروری سے امریکہ سمیت مغربی ممالک آگاہ ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے امریکہ پاک فوج کو زیادہ قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔ امریکہ پاکستان کو اسلامی ممالک اور خطے کا اہم ملک سمجھتا ہے پاکستان ایک جوہری طاقت ہے ایک مستحکم اور خوشحال پاکستان خطے پر مثبت اثرات مرتب کرے گا امریکہ پاکستان تعلقات پاکستان کی ترقی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ بہت سے امریکی ٹیکنو کریٹس فوجی اور امریکی سفارتکاروں کی نظر میں پاکستان نے بالخصوص پاک فوج اور جملہ اداروں نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لئے اہم کردار ادا کیا اور پاکستان آج بھی دہشت گردی کا مقابلہ کر رہا ہے امریکہ اور مغربی ممالک ماضی میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کر چکے ہیں۔ امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان کے بعض سیاسی رہنما بعض اوقات امریکہ مخالف جذبات کو سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرنے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یاد رکھیئے امریکہ اور چین دونوں مستحکم پاکستان کے خواہاں ہیں اور نہ ہی دونوں پاکستان کے اندرونی معاملات میں زیادہ الجھنا چاہتے ہیں۔ امریکی ساق صدور سے لے کر بائیڈن انتظامیہ اور اب ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی فرسٹ امریکہ ہی رہی ہے پاکستان کو بھی فرسٹ پاکستان پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ چلنا ہوگا۔ امریکہ کسی فرد واحد سیاستدان کے لئے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتا۔ موجودہ وزیر خارجہ کو نئی ٹرمپ انتظامیہ سے اپنے رابطے تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔