لندن :وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کی امریکہ حوالگی ،اطلاعات کے مطابق برطانوی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے جمعہ کو وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو فوجداری الزامات کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ کے حوالے کرنے کی منظوری دے دی، اب اس کے بعد یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ یہ قانونی جنگ اب اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے

وکی لیکس کا بانی مشکل میں، عدالت نے سنائی سزا

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج امریکی حکام کو 18 معاملات میں مطلوب ہیں، جن میں جاسوسی کا الزام بھی شامل ہے، جس میں وکی لیکس کی جانب سے خفیہ امریکی فوجی دستاویزات اور سفارتی پیغام رسانی کے وسیع ذخیرے کے اجراء سے متعلق ہے جن کے بارے میں واشنگٹن نے کہا تھا کہ اس نے جانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

جبکہ اس کے برعکس وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیرو ہے جسے اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ اس نے افغانستان اورعراق کے تنازعات میں امریکی غلط کاموں کوبے نقاب کیا، اور یہ کہ اس کا مقدمہ صحافت اور آزادی اظہار پر سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کا حملہ ہے۔

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کے کیس کا فیصلہ آج متوقع.

ادھر برطانوی وزارت داخلہ نے کہا کہ اب اس کی حوالگی کی منظوری دے دی گئی ہے لیکن وہ اب بھی اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتا ہے۔ فیصلے کے خلاف اپیل کے حوالے سے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے کہا کہ وہ کریں گے،جبکہ برطانوی وزارت داخلہ نے کہ بھی وضاحت کی ہے کہ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کی حوالگی پربرطانوی قانون اورعدالتوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے

یاد رہے کہ اس سے پہلے ایک برطانوی جج نے فیصلہ دیا کہ اسانج کو ملک بدر نہیں کیا جانا چاہیے، یہ کہتے ہوئے کہ اس کی ذہنی صحت کے مسائل کا مطلب ہے کہ اگر اسے سزا سنائی گئی اور اسے زیادہ سے زیادہ حفاظتی جیل میں رکھا گیا تو اسے خودکشی کا خطرہ ہو گا۔جبکہ دوسری طرف اسے ایک اپیل پر مسترد کر دیا گیا جب ریاستہائے متحدہ نے یقین دہانیوں کے وعدے پر وعدے کیے، جس میں یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ اسے کسی بھی سزا کے لیے آسٹریلیا منتقل کیا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کی اہلیہ سٹیلا نے کہا کہ یہ پریس کی آزادی اور برطانوی جمہوریت کے لیے ایک سیاہ دن ہے۔ "آج لڑائی کا خاتمہ نہیں ہے، یہ صرف ایک نئی قانونی جنگ کا آغاز ہے۔”

وکی لیکس کے بانی کو امریکا نے مانگا تو کیسے منہ کی کھانا پڑی

Shares: