نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
زندگی عروج و زوال کا ایک مسلسل سفر ہے.دکھ سکھ,کامیابی ناکامی زندگی کا حصہ ہیں. جہاں زندگی بہت سے خوش کن لمحات دیتی وہے وہیں آزمائشیں بھی لازمی ہیں.
امید وہ قیمتی سرمایہ ہے جو آخری سانس تک انسان کو زندگی کے اس تھکا دینے والے سفر میں آگے بڑھنے کے لیے پُرعزم رکھتا ہے.انسان فطری طور پر بہت جلد باز واقع ہوا ہے.اسے سب کچھ اپنے مطابق چاہیے ہوتا اور جب کوئ خلافِ توقع صورتحال پیش آتی ہے تو بجائے حوصلے سے آزمائش کا مقابلہ کرنے کے تھوڑی سی کو شش کے بعد مایوس اور نا امید ہو جاتا ہے. امید انسان کو وقار اور خود داری کے ساتھ مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت دیتی ہے جبکہ نا امیدی اور منفی خیالات کسی بھی امتحان کا مقابلہ کرنے سے پہلے ہی انسان کے ہار جانے کی وجہ بنتے ہیں. نا امیدی مسلئے کے نظر آنے والے ممکنہ حل کو بھی دھندلا دیتی ہے اور انسان کو محض انھیرا نظر آتا ہے جبکہ ذرا سی مثبت سوچ اور امید کا چراخ نا مسائد حالات سے نکلنے کے لیے روشنی کا باعث بنتے ہیں.مثبت سوچ اور طرز عمل زندگی کے ہر لمحے کا تقاضا ہے. وقت کی سب سے بڑی خوبصورتی یہی ہے کہ اسکا کوئ بھی رنگ اٹل نہیں ہوتا. اگر مشکل ہو تو اسکے بعد آسانی کے رنگ کے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں.حالات جس قدر بھی مشکل ہوں,آزمائش کی رات جتنی بھی لمبی اور سیاہ ہو ایک روشن صبح ہر شب کا مقدر ہے. حقیقت یہ ہے کہ آزمائشیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان والوں کا امتحان ہیں. جتنا ایمان زیادہ ہو آزمائش بھی اتنی بڑی ہوتی ہے اور اسکا اجر بھی اتنا ہی زیادہ.راہگزارِ حیات میں آنے والے کٹھن لمحات انسان کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ خود سے وابستہ لوگوں کی پہچان بھی کروا جاتے ہیں.مخلص اور مطلبی لوگوں کی پہچان مشکل وقت میں ہی ہوتی ہے. حالات جیسے بھی ہوں ہر حال میں دنیاوی سہاروں کی بجائے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید رکھنی چاہیے. اسلام میں مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے. مومن کبھی اپنے رب کی رحمت سے نامید نہیں ہوتا.
قرآن میں اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے،
’’ اور تم اللہ سے وہ امید رکھتے ہو جو امید وہ (کفار) نہیں رکھتے‘‘۔(سورہ النساء ،104 )
لہذا مثبت گمان/امید رکھنا ایک مسلمان کے ایمان کا لازمی تقاضا بھی ہے. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جیسا میرا بندہ میرے متعلق گمان کرے گا مجھے ویسا ہی پائے گا. لہذا ہمیں چاہیے کہ اس ذات پر جو محض ایک "کُن”سے تقدیر بدل دینے پر قادر ہے زندگی کے ہر معاملے میں بہتری کا گمان رکھیں.امید رحمت کا دوسرا نام ہے خدا پر یقین رکھنے والا رحمت پر یقین رکھتا ہے”
معاشرے میں منفی سوچ کا زہر دن بدن بڑھتا جا رہا ہے خود کشی کی شر ح بھی ہر مسلسل بڑھ رہی.یہ ناامیدی کی آخری حد ہے جب انسان کو زندگی کا خاتمہ اپنے مسائل کا واحد حل نظر آتا ہے.زندگی میں جب کسی موڑ پے لگے کہ آپ بہت مایوس ھو یا آپ کو لگے کہ کچھ بھی آپ کے حق میں نہیں ھے تو اک نظر دوڑا کے دیکھیں جو آپ کے پاس موجود ھے. جنکو اللہ تعالیٰ نے قدرتی طور امید اور مثبت سوچ جیسی نعمت سے نوزا ہے انہیں چاہیے کہ زندگی سے مایوس لوگوں کے لیے امید کی کرن بنیں. بعض اوقات انسان کا ایک مثبت لفظ, چند حوصلہ افزاء جملے کسی میں زندگی کی ایک نئی روح پھونکنے اور دل کے بدلنے کا باعث بنتے ہیں. امید افزاء الفاظ جو کسی کو جینے کی ایک نئی امنگ دیں یہ بھی ایک صدقہ ہے.کبھی کبھی زندگی میں ایسے موڑ بھی آتے ہیں کہ آگے کا کؤی راستہ نہیں اور واپسی کا کوئی تصور نہیں ہوتا پھر معجزے ہوتے ہیں”کن فیکون” سے تقدیر بدل جاتی ہے لیکن صبر اور اللہ پر ایمان، بھروسہ شرط ہے۔
امید کا دامن کبھی نہ چھوڑیں” کل کا دن آج سے بہتر ھو گا ” انشااللہ
@SMA___23